کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 384
تھے جب اسے مطلوبہ ذمہ داری کے متعلق علم بھی ہوتا۔ اور یہ بھی صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتوی دیا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ کو اس چیز کا علم بھی تھا۔ اور محال ہے کہ ان دونوں حضرات سے بڑھ کر کوئی دوسرا عالم موجود ہو مگر پھر بھی اس اہم منصب پر یہ دوحضرات کام کرتے رہیں ۔ جہاں تک یمن کی قضاکا تعلق ہے تو رسول اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو بھی قاضی بنا کر روانہ فرمایا تھا۔ اور اس میں منصب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شریک کار کئی دوسرے لوگ بھی ہیں ان میں سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی ہیں ۔ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غالب طور پر پوری جمہور امت سے علم میں منفرد ہیں ۔
[خلفاء اربعہ کے مسائل و فتاویٰ میں موازنہ]:
پھر یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سفر وحضر میں ؛ نشست وبرخاست گفت و شنیدوقیام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت میں رہا کرتے تھے ۔اور اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتاوی و احکام سے بذات خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ آگاہ تھے۔توصحت کے ساتھ بطور ضرورت معلوم ہوا کہ آپ احکام و مسائل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے۔ علم کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسروں پر فائق نہ ہوں یا کم از کم اس میں دوسروں کے برابر نہ ہوں ۔اس سے روافض کا یہ دعوی باطل ثابت ہوگیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام لوگوں سے بڑے عالم تھے۔ وللّٰہ الحمد۔
[نیوش پرگوش علی رضی اللہ عنہ ]:
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿وَتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ ﴾ (الحاقۃ 12)
’’ اور یاد رکھنے والا کان اسے یاد رکھے۔‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ حدیث اہل علم کے ہاں بالاتفاق موضوع ہے۔اور یہ بات بھی اضطراری طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد ہر گزیہ نہیں ہے کہ صرف ایک کان کے علاوہ کوئی دوسرا اسے یاد نہ رکھے ؛ اور نہ ہی اس سے کسی متعین شخص کے کان مراد ہیں ۔ یہاں پر مقصود صرف نوع ہے۔ اس میں ہر یاد رکھنے والا کان شامل و داخل ہے۔
[فطانت ِعلی رضی اللہ عنہ ]:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نہایت ذہین و فطین اور علم کے بہت بڑے حریص تھے ؛آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے؛دن رات میں ہر وقت آپ کی صحبت میں رہتے ۔ بچپن سے لے کر تا وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ کامل صحبت کا شرف حاصل ہوا ۔ ‘‘
[جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ بات کیسے ثابت ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ ذہین اور ان سے زیادہ شائق علم تھے؟ اور آپ نے ان دونوں حضرات سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا۔ بخاری و مسلم میں