کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 383
میں آمدو رفت کو شمار کریں کہ آپ سے احادیث سننے والے کس کثرت سے تھیاور پھر ان کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایات سے مقابلہ کریں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاوی کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فتاوی سے تقابل کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر اعتبار سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایات اور فتاوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت زیادہ بنتے ہیں ۔ اور ہر ذی علم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت کئی گنا زیادہ علم تھا۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے جس نے کم عمر پائی ہے اس سے منقول روایات کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ اور جس نے طویل عمر پائی اس سے روایات بھی کثرت کے ساتھ منقول ہیں ۔ سوائے ان چند صحابہ کے جن کی طرف سے دوسروں نے لوگوں کوتعلیم دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد سترہ سال اور چند ماہ تک زندہ رہے۔ مسند عمر میں پانچ سو تہتر احادیث ہیں ۔ ان میں سے تقریبا پچاس احادیث صحیح ہیں ۔ یعنی جتنی صحیح احادیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔ تو اتنے بڑے عرصہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایات سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیادہ روایات کی تعداد صرف انچاس ہے۔ اور جب کہ صحیح میں صرف ایک یا دو احادیث زائد ہیں ۔ جب فقہ کے ابواب کو دیکھا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتاوی ہیں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاوی کے برابر ہیں ۔ اور جب ہم ان کے درمیان مدت کی نسبت نکالتے ہیں اور مختلف شہروں میں گردش کو دیکھیں اور پھر احادیث کا مقابلہ کریں اور فتاوی کے مقابلہ میں فتاوی کو دیکھیں توہر باشعور اورعقل مند کو اس بات کا علم ضروری حاصل ہوجائے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت کئی گنا زیادہ علم تھا۔ ہم مسند عائشہ میں دیکھتے ہیں کہ دو ہزار دو سو دس مسند احادیث ہیں ۔ اور حضرت ابوہریرہ کی مسند میں پانچ ہزار تین سو چوہتر مسند احادیث ہیں ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ مسند ابن عمر میں اور مسند انس میں مسند عائشہ کے قریب قریب احادیث ہیں ۔اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسند جابر اور مسند ابن عباس میں سے ہر ایک میں پندرہ سو سے زیادہ احادیث ہیں ۔ اور حضرت ابن مسعود سے آٹھ سو سے کچھ زیادہ مسند احادیث مروی ہیں ۔ یہ جتنے لوگوں کا بھی ہم نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی سب کے فتاوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاوی سے زیادہ ہیں ۔ اس سے اس جاہل کا یہ قول باطل ہو گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے عالم تھے ۔ یہاں تک کہ اس نے کہا ہے :اگر وہ یہ کہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خمس پر اور یمن میں قضا پر عامل بنایا تھا؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے:ہاں ! حضرت ابوبکر کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کا مشاہدہ علم میں بہت زیادہ قوی اور ثابت تھا اس علم کی نسبت سے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس یمن میں تھا۔ ایسے رسول اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کئی سرایا پر عامل بنایا تھا جن میں مال خمس بھی حاصل ہوا۔ اس حکم کے اعتبار سے بغیر کسی شک و شبہ کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا علم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم کے مساوی ہوا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کوئی ذمہ داری اسی وقت تفویض کرتے