کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 382
وجوباً معلوم اور واضح ہوتی ہے کہ آپ دیگر صحابہ کی نسبت نماز کے مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے اور نماز دین اسلام کا رکن رکین ہے۔ مزید برآں کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ و صدقات کی وصولی پر بھی مقرر فرمایا تھا؛ تو یہ بھی ضرورت کے تحت وجوباً معلوم ہوگیا کہ آپ کو زکوٰۃ وصدقات کے احکام کا بھی علم تھا۔ جیسے کہ آپ کے علاوہ دوسرے کافی تعداد میں صحابہ اس علم سے بہرہ ور تھے۔ ان صحابہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا علم زیادہ ہی ہوسکتا ہے کم نہیں ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو بھی زکوٰۃ کی وصولی پر عامل مقرر کیا تھا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی انسان کو ذمہ داری تفویض کرتے تھے جسے اپنی ذمہ داری سے متعلق شرعی مسائل کا علم ہوتا تھا۔ زکوٰۃ نماز کے بعد اسلام کا ایک اور بڑا رکن ہے۔
ہمارے اس دعوی پر کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مسائل زکوٰۃ کا پورا پورا علم تھا ؛ دلیل یہ ہے کہ زکوٰۃ کے بارے میں وارد صحیح احادیث جن کے خلاف کرنا جائز نہیں ‘ وہ حضرت ابوبکراور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی روایات ہیں ۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سند سے منقول روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ اور ان میں ایسی چیزیں بھی ہیں جنہیں جملہ طور پر فقہاء نے ترک کردیا ہے ۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پچیس اونٹوں پر ایک بکری زکوٰۃ ہے۔
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کیا تھا ۔ اس سے ضرورت کے تحت وجوباً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ حج کے مسائل کو دیگر صحابہ کی نسبت بہتر طور پر اور زیادہ جانتے تھے۔حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے۔
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لشکر کا سپہ سالار بھی بنایا تھا۔ اس سے صحت کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ دیگر تمام سالار مجاہدین کی طرح جہاد کے احکام و مسائل سے بھی آگاہ تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذمہ داری صرف اہل علم کو تفویض فرمایا کرتے تھے۔ اوراس ضمن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا پایہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یا دیگر سالاران لشکر سے کسی طرح بھی فروتر نہ تھا۔ جب علمی مسائل صلوٰۃ و زکوٰۃ اور حج کے احکام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تفوق ثابت ہوگیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد کے مسائل جاننے میں آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پیچھے نہ تھے تو اس سے آپ کا علمی پایہ وا ضح ہو جاتا ہے۔
جہاں تک روایت اور فتوی کا تعلق ہے توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدآپ نے صرف دو سال چھ ماہ کا عرصہ مہلت پائی۔ اس عرصہ میں آپ حج اور عمرہ کے علاوہ مدینہ طیبہ سے باہر نہیں نکلے۔ اور لوگوں کو آپ کے پاس موجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کی ضرورت بہت ہی کم پیش آئی۔ اس لیے کہ آپ کے گرد و نواح میں جتنے بھی لوگ تھے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا۔پس یہی وجہ ہے کہ آپ سے منقول روایات کی تعداد دو سو بیالیس ہے۔جو کہ سند کے ساتھ منقول ہیں ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات کی تعداد پانچ سو ڑسٹھ مسند حدیث ہے۔ان میں سے پچاس احادیث صحیح ہیں ۔حالانکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریبا تیس سال کا عرصہ زندہ رہے۔ اس عرصہ میں آپ صفین سے بھی گزرے اور کئی سال کوفہ میں بھی گزارے۔ بصرہ بھی گئے اور مدینہ میں بھی لمبا عرصہ گزارا۔ اگر ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی کی نسبت آپ کی زندگی اور شہر شہر اور بستیوں