کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 381
دوسرے لوگوں کا بڑا کردارہے۔ اہل مکہ اور اہل مدینہ کے احوال تو صاف ظاہر ہیں [ کسی بیان کی ضرورت نہیں ]۔یہی حال اہل بصرہ اور شام کا بھی ہے۔ان شہروں کے علماء کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منفرد روایات حد درجہ قلیل ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علم کی غالب روایات اہل کوفہ کے ہاں ہیں ۔
اہل کوفہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے بھی پہلے قرآن وسنت جانتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ تو بہت بعد میں آئے۔
[پھر یہ بات کیوں کر صحیح ہو سکتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا واحد دروازہ تھے]۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ فقہاء مدینہ [میں اجلہ التابعین وہ تھے]جنہوں نے خلافت فاروقی میں اکتساب علم کیا۔[ جو خلافت عثمانی سے بھی پہلے کے تربیت یافتہ تھے نہ کہ علوی خلافت کے۔ایسے ہی] حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اہل یمن کو جو تعلیم دی وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعلیمات سے بہت بڑھ کر تھی؛ اوروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ عرصہ یمن میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ اہل یمن کی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایات سے بڑھ کرہیں ۔حضرت شریح اور دوسرے اکابر تابعین نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ وارد کوفہ ہوئے تو[ وہاں جلیل القدر تابعین کی خاصی تعداد موجود تھی۔ مثلاً ]شریح وہاں کے قاضی تھے؛انہوں نے اور عبیدہ سلیمانی [اوردوسرے فقہاء جیسے علقمہ، مسروق اور ان کے نظائر و امثال] نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر تربیت حاصل کی تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوفہ آنے سے پہلے کوفہ اور دوسرے شہروں میں اسلام اور اسلامی تعلیمات پھیل چکے تھے۔
امام محمد بن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’روافض میں سے بہت سارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ اعلم الناس تھے‘‘حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ کسی صحابی کے علم کا پتہ دوباتوں میں سے کسی ایک بات سے چلتا ہے؛ ان کے علاوہ کوئی تیسری بات نہیں :
پہلی بات:اس کے فتاویٰ و روایات کی تعداد کس قدر ہے۔
دوسری بات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس حد تک اسے مختلف کاموں پر مامور کیا۔‘‘
یہ بات انتہائی محال اورباطل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے انسان کو ذمہ داری سونپیں جسے کوئی علم ہی نہ ہو ۔ یہ [ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی] وسعت علم کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اس بات کو جانچ پرکھ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی پوری بیماری کے دوران نمازوں کا امام مقرر کیا تھا۔ حالانکہ اس وقت حضرت عمر، علی، ابن مسعود،ابی ابن کعب اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔یہ غزوہ تبوک کو جاتے وقت جب آپ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کرنے سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ مدینہ میں اس وقت صرف[معذورلوگ اور] بچے اور عورتیں تھیں ۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امام مقرر کرنے سے یہ بات ضرورت کے تحت
[1] سنن ترمذی کتاب المناقب، باب (۲۰؍۷۳)، (حدیث:۳۷۲۳)، بلفظ ’’ انا دار الحکمۃ و علی بابھا‘‘ و سندہ ضعیف ، شریک قاضی راوی مدلس ہے۔ مستدرک حاکم(۳؍۱۲۶،۱۲۷) باسناد أخر ضعیفۃ۔