کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 38
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی کوئی فضیلت بیان نہیں ہوئی۔ لیکن آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین؛ غزوہ طائف اور غزوہ تبوک میں شریک ہوئے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج وداع بھی کیا؛ اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی بھی تحریر فرمایا کرتے تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت وحی پر امین بنایا تھا۔ جیسا کہ آپ نے اس امانت پر آپ کے علاوہ دوسرے صحابہ کی ذمہ داری بھی لگائی تھی۔ اگرشیعہ ہر حال میں ان کتابوں میں موجود تمام روایات قبول کرتے ہیں ؛توان کتابوں میں بہت ساری ایسی روایات بھی ہیں جو ان کے عقیدہ سے ٹکراؤ رکھتی ہیں ۔اور اگر تمام روایات کو رد کرتے ہیں تو پھرروایت کو محض ان کی طرف منسوب کرنے سے ہی ان سے استدلال کرنا باطل ٹھہرا۔ ور اگر موافق روایات کو قبول اور مخالف روایات کو رد کرتے ہیں تو ان کے مخالف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ اس طرح کا کلام باطل ہے[اور ان کی مقبول روایات کو مسترد کردے۔ اوران کی رد کردہ روایات سے استناد کرے۔ لوگوں میں یہ بات عام طور سے رائج ہے کہ وہ مناقب و مثالب کے بارے میں ہر قسم کی روایات کو قبول کرلیتے ہیں ]۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی روایات سے مذہب کی صحت پر استدلال کرنا ہر گزجائز نہیں ۔ اس لیے کہ اس سے کہا جاسکتا ہے کہ : اگر تم اپنے مذہب سے ہٹ کر اس حدیث کی صحت کو جانتے تھے ؛ تو پھر اپنے مذہب کے صحیح ہونے پر دلیل لاؤ۔ اور اگر تم اس بنا پر اس روایت کو صحیح سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے مذہب کے موافق ہے ؛ تو اپنے مذہب کی بنیاد پر روایت کو صحیح کہنا ممتنع ہے۔ اس لیے کہ اس صورت میں مذہب کا صحیح ہونا اس حدیث پر موقوف ہوگا اور حدیث کا صحیح ہونا مذہب پر موقوف ہوگا۔ اس سے دور لازم آئے گا۔ جب کہ دور کا لازم آنا ممتنع ہے۔ مزید برآں مذہب میں یہ ہے کہ اگر تم نے کسی اور سند سے اس روایت کی صحت معلوم کی تھی ؛ تواس سے اس سند کابھی صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔اس لیے کہ کبھی کبھار انسان کسی دوسرے پر کچھ جھوٹ بھی بول لیتا ہے اگرچہ وہ بات حق ہی کیوں نہ ہو ۔بہت سارے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے اقوال روایت کرتے ہیں ؛ جو اقوال بذات خود حق ہیں ؛ لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہیں ۔ پس کسی چیز کے سچا ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہو۔اور اگر تمہیں اس کی صحت اسی طریق سے معلوم ہوئی ہے ؛ تو یہ بھی ممنوع ہے۔کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی چیز کے صحیح ہونے سے اس کی اصل صحت کو ثابت کیا جائے ؛ اس سے دور لازم آئے گا۔ پس یہ بات ثابت ہوگئی کہ اپنے مذہب کی موافقت ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کی صحت ثابت نہیں ہوسکتی ؛ خواہ مذہب کی صحت معلوم ہویا نہ معلوم ہو۔ ہر وہ انسان جس کو منقولات سے ادنی سا بھی واسطہ ہے ؛ وہ جانتا ہے کہ ان میں سچ اور جھوٹ ہر طرح کی چیزیں پائی جاتی ہیں ۔اور لوگوں نے عیب جوئی اور فضائل بیان کرنے کے لیے بہت سارے جھوٹ بھی گھڑ لیے ہیں ۔جیسا کہ دوسرے کئی امور میں بھی جھوٹ بولا گیا ہے۔ اور ان روایات میں بھی جھوٹ ہے جو ان کے موافق یا مخالف ہیں ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل میں بہت سارا جھوٹ بھی شامل ہے جیسا کہ