کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 379
کردوں ۔پس یاد رکھو جس شخص کے لیے میں نے اس کے مسلمان بھائی کے حق میں سے کچھ فیصلہ کر دیا؛تو وہ اسے نہ لے۔بیشک میں نے اسے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیاہے۔‘‘ [1]
اس حدیث میں سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ آپ کے فیصلہ کر دینے سے حلال چیزحرام ہو جاتی ہے نہ حرام چیز حلال ٹھہرتی ہے۔حلال و حرام کا علم ظاہر و باطن دونوں کو شامل ہے ۔ جو حلال و حرام کا بڑا عالم ہو وہ دین کا بڑا عالم ہے۔
مزید برآں یہ کہ قضا کی دو اقسام ہیں : ۔ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ دو فریق جھگڑ رہے ہوں ان میں فیصلہ کیا جائے ۔ یعنی ایک انسان کسی چیز کا دعوی کررہا ہے اوردوسرا اس کا منکر ہے ؛ تو ان دونوں کے مابین فیصلہ ثبوت کے اعتبار سے ہوگا۔
دوسری قسم یہ ہے کہ : اس میں کسی کو انکار نہیں ۔ بلکہ ایک دوسرے کے حق کااعتراف کررہے ہیں ؛ لیکن ان کو علم نہیں کہ دوسرے کا کیا استحقاق ہے ۔ مثلاً وراثت میں جھگڑا؛یا زوجین کا آپس میں حقوق کا جھگڑا یا دو شریک کاروں کا باہمی معاملہ ۔
پس یہ علم بھی علم حلال و حرام کا ایک باب ہے ۔جب انہیں کوئی ایسا آدمی فتوی دیدے جس کی بات پر دونوں فریق راضی ہوں تو یہ ان کے لیے کافی ہے۔ پھر ان کے درمیان فیصلہ کرنے کی نوبت نہیں آتی۔فیصلہ کرنے والے کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب وہ اس کا انکار کررہے ہوں ۔ غالب طور پر یہ فسق و فجور کی وجہ سے ہوتا ہے او رکبھی نسیان کی وجہ سے بھی۔
پس جن لوگوں کا قضاء کے ساتھ تعلق نہیں ہے ؛ انہیں اس علم کی ضرورت بھی نہیں ؛ سوائے چند نیک افراد کے۔جب کہ حلال و حرام کے علم کی ضرورت تمام لوگوں کو ہوتی ہے خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فیصلے کرنے کے لیے قاضی بنایا تو ایک سال تک آپ کے پاس دو آدمی بھی اپنا جھگڑا لے کر نہیں آئے۔
اگر اس قسم کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلوں کو جمع وشمار کیا توان کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچتی۔ تو پھر اس کی اُس حلال و حرام کے سامنے کیا اہمیت ہے جو دین اسلام کی اصل بنیاد ہے ۔ جب کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حلال و حرام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔‘‘[اس کی تخریج گزرچکی ہے ]۔
اس کی سند صحیح تر اور دلالت میں صاف واضح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسری روایت سے یہ استدلال کرنے والا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے ؛ جاہل انسان ہے ۔تو پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے بھی بڑے عالم تھے۔ حالانکہ وہ حدیث جس میں حضرت معاذ اورحضرت زید رضی اللہ عنہما کا ذکر ہے بعض علماء اسے ضعیف کہتے ہیں اور بعض اسے حسن کہتے ہیں ۔اور جس روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا
[1] سنن ترمذی، کتاب المناقب ، باب مناقب معاذ بن جبل و زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ ما(ح:۳۷۹۰،۳۷۹۱)، سنن ابن ماجۃ، المقدمۃ۔ باب فضائل خباب رضی اللّٰہ عنہ (ح:۱۵۴)۔