کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 378
کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا بیٹا ! کیا تجھے یہ بات معلوم نہیں ؟ میں نے کہا:’’ نہیں ‘‘ فرمایا : ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ‘‘ میں نے عرض کیا: ان کے بعد کون ؟ فرمایا : ’’عمر رضی اللہ عنہ ۔‘‘ یہ باتیں آپ اپنے بیٹے سے کہہ رہے ہیں جس سے کوئی تقیہ بھی نہیں کررہے۔اور اپنے خواص لوگوں کو بتا رہے ہیں اوراس انسان کو سزادینے کا اعلان کرتے ہیں جو آپ کو حضرات شیخین پر فضیلت دیتا ہے ؛ آپ کی نظر میں وہ تہمت باز ہے۔ جب کہ متواضع کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان لوگوں کو سزا دے جو آپ کو حضرات شیخین پر فضیلت دیتا ہو‘ اس لیے کہ وہ حق بات کہہ رہا ہے ؛ اورنہ ہی اسے مفتری [تہمت باز ] کہنا جائز ہوتا ۔‘‘ جو کوئی بھی آپ سے افضل تھا ؛ خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے ہو یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ؛ وہ آپ سے بڑا عالم بھی ہے ۔ اس لیے کہ فضیلت کی اصل بنیاد علم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ [الزمر۹] ’’فرما دیجیے: کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے۔‘‘ اس مسئلہ پر دلائل بھی بہت زیادہ ہیں اور علماء کرام کا کلام بھی بہت زیادہ ہے ۔ [حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاضی؟]: [اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اَقْضَاکُمْ عَلِیٌّ۔‘‘ ’’سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں ۔‘‘ اور فیصلہ کرنا علم خصومات و دین کو مستلزم ہے۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں حدیث:’’اَقْضَاکُمْ عَلِیٌّ‘‘ ثابت نہیں ہے۔اور نہ ہی اس کی کوئی اسناد معلوم ہیں تاکہ اس سے احتجاج کیا جا سکے۔ اس سے یہ حدیث صحیح تر ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حلال و حرام کے بہت بڑے عالم ہیں ۔‘‘ [1] حلال و حرام کا علم دین اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے؛ یہ علم حلال و حرام سے زیادہ علم قضاء کو شامل ہے۔ شیعہ کی ذکر کردہ حدیث سنن مشہورہ اور معروف مسانید میں سے کسی ایک میں بھی صحیح یا ضعیف سند کے ساتھ مندرج ہی نہیں ۔یہ جس اسناد کے ساتھ مروی ہے اس میں متہم بالکذب راوی پائے جاتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’عَلِیٌّ اَقْضَانَا ‘‘ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحابہ میں ایک بڑے قاضی تھے۔‘‘ بیشک قضاء فصل خصومات کو کہتے ہیں ۔یہ ظاہر کے اعتبار سے ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلہ حقیقت حال کے برعکس صادر کیا جاتا ہے، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میرے پاس فصل خصومات کے لیے آتے ہو۔ اس بات کا احتمال ہے کہ تم میں سے ایک شخص اپنا نقطہ نظر زیادہ وضاحت سے بیان کر سکتا ہو اور میں جس طرح سنوں اس اعتبار سے اس کے حق میں فیصلہ صادر
[1] المحلی لابن حزم(۱۱؍۲۸۶)۔ [2] البخاری، ....باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم’’ لو کنت متخذاً خلیلاً‘‘ (ح:۳۶۷۱)