کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 376
آپ صحیح معنوں میں لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے خلیفہ تھے۔انہیں تعلیم دیتے؛ ان کی اصلاح کرتے ؛ انہیں آشیرباد دیتے؛ اور مسائل کو ایسے دلائل سے واضح کرتے کہ شبہ اٹھ جاتا او رجھگڑ ا ختم ہوجاتا ۔
آپ کے بعد کوئی دوسراایسا نہیں آیا جو علم و کمال میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو پہنچ سکتا ہو۔پس وہ لوگ بعض مسائل میں اختلاف کیا کرتے تھے ؛ جیساکہ دادا او ربھائی کی میراث میں ؛ حرام میں ؛ تین طلاق کے مسئلہ میں ؛ متعۃالحج میں اختلاف ؛ طلاق بائین والی عورت کے نان و نفقہ اوررہائش کے بارے میں اختلاف۔ اوران کے علاوہ دیگر ایسے بہت سارے مسائل ہیں جن میں عہدِ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اختلاف نہیں ہواتھا۔ جب کہ حضرت عمر و عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے بہت سارے اقوال میں مخالفت کیا کرتے تھے۔ لیکن کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتوی دیا ہو ؛ یا فیصلہ کیاہو؛او رلوگوں نے اس میں آپ کی مخالفت کی ہو۔ یہ آپ کے سب سے بڑے عالم ہونے کی نشانی ہے۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام بنے ‘اور آپ نے صحیح معنوں میں اسلام کو قائم کیا ؛ اور کسی چیز میں خلل نہیں ڈالا؛ بلکہ لوگوں کو اسی دروازہ سے واپس اسلام میں داخل کیا جس سے وہ نکل گئے تھے ؛ حالانکہ اس وقت بہت بڑی تعداد میں آپ کے مخالفین موجود تھے جو کہ مرتد ہوچکے تھے۔ بہت سارے رسوا ئی چاہنے والے تھے۔ مگر آپ کی وجہ سے ان لوگوں کا دین و ایمان مکمل ہوا؛ اس باب میں کوئی دوسرا آپ کے برابر نہیں ہوسکتا۔
لوگ آپ کو خلیفہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب دیا کرتے تھے۔ پھر آپ کی موت سے یہ اتصال لفظی منقطع ہوگیا ۔ ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس وقت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے اسرار لفظی اور معنوی طور پر ظاہر ہوئے:
﴿اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰]
’’جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
اس لیے کہ لوگوں نے آپ کو خلیفہء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب دیا تھا جو کہ آپ کی موت کے ساتھ ہی منقطع ہوگیا۔
مزید برآں یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بعض سنتوں کی تعلیم پائی۔ جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔اس کی وضاحت اس چیز سے ہوتی ہے کہ وہ علمائے کوفہ جنہوں نے حضرت عمرو علی رضی اللہ عنہما کی صحبت پائی ؛جسے:علقمہ ؛ الاسود؛ شریح وغیرہم؛یہ حضرات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ جبکہ مکہ و مدینہ اور بصرہ کے تابعین کے ہاں تو یہ بات اتنی زیادہ ظاہر و مشہور تھی کہ اس کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں ۔بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علم کوفہ میں آپ کی مدت خلافت کے قیام کے لحاظ سے ظاہر ہوا۔وہ تمام شیعان علی رضی اللہ عنہ جو آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے؛ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ آپ کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر علم و عمل ؛ فقہ اور دین میں سے کسی ایک چیز میں بھی ترجیح دیتا ہو۔ بلکہ وہ تمام شیعہ جو آپ کے ساتھ ملکر شریک جنگ تھے ؛ ان کا عام مسلمانوں کے ساتھ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و تقدیم پر اتفاق تھا۔ سوائے ان چند
[1] صحیح بخاری، حوالہ سابق(حدیث:۳۶۸۱)، صحیح مسلم، حوالہ سابق (حدیث: ۲۳۹۱)
[2] سنن ترمذی، کتاب المناقب ، باب(۱۷؍۵۲)، (حدیث:۳۶۸۶)
[3] صحیح بخاری۔ کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ، باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم’’سدوا الابواب الا باب ابی بکر‘‘ (ح:۳۶۵۴)، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲)۔