کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 375
نے پی لیا، یہاں تک کہ سیری کا اثر میرے ناخنوں میں ظاہرہونے لگا، پھرجو بچ گیا میں نے وہ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ صحابہ نے عرض کیا:’’ پھر آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی؟ فرمایا:’’ دودھ سے علم مراد ہے۔‘‘ [1]
ترمذی کی ایک روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اگر میں مبعوث نہ کیا گیا ہوتا تو عمر مبعوث ہوتے ۔‘‘
ترمذی میں ہی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے ۔‘‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھانے کے لیے؛ جوکہ اسلام کا اصلی ستون ہے؛ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کرنے سے پہلے مناسک حج ادا کرانے کے لیے بھی آپ کو ہی امیربنایا گیا؛ اور مکہ میں منادی کرائی گئی کہ : اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے او رنہ ہی کوئی ننگا ہوکر بیت اللہ کا طواف کرے۔
پھر آپ کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجاتو آپ نے پوچھا : کیا امیر بن کر آئے ہو یا مامور بن کر؟ تو عرض کی : مامور بن کر۔ پس اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر امیر مقرر کیا۔ آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سننے اور حکم ماننے کا حکم دیا تھا۔یہ اس غزوہ تبوک کے بعد کا واقعہ ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں جانشین مقرر کیا گیاتھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مرتب کردہ کتاب صدقات سب سے آخری اور صحیح ترین کتاب ہے ؛ اسی لیے فقہاء کا اس پر عمل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو کتابیں تھیں ؛ وہ متقدم اور منسوخ تھیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ناسخ ومنسوخ میں بھی دوسروں سے زیادہ علم رکھتے تھے۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ واقف تھے۔‘‘ [3]
ایسے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی بھی مسئلہ میں اختلاف نہیں ہوا مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا فیصلہ کردیا؛ اور جھگڑا ختم ہوگیا۔ آپ کے زمانے میں کسی ایک بھی ایسے مسئلہ کا علم نہیں ہوسکا جس میں اختلاف ہوا ہو او رپھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے وہ جھگڑااور اختلاف ختم نہ ہوا ہو۔مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر آپ کی تدفین ؛ میراث ؛ لشکر اسامہ کی روانگی؛ مانعین زکوٰۃ سے جنگ؛ اور ان کے علاوہ دوسرے کئی بڑے مسائل بھی ہیں ۔
[1] صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ، باب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۳۶۸۹)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۲۳۹۸)، عن عائشۃ، رضی اللّٰہ عنہا ۔