کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 373
نے کہا کہ تمہیں تمہارے مہمانوں سے کس نے روک لیا؟ یا یہ کہ تمہارے مہمان انتظار کر رہے ہیں ۔ وہ بولے: کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا :آپ کے آنے تک ان لوگوں نے کھانے سے انکار کیا؛ کھانا ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا مگر انہوں نے نہ مانا....۔‘‘ [1] ایک روایت میں آپ فرماتے ہیں : ’’ میرے والد رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ اور ایک موقع پر آپ نے فرمایا: ’’ہجرت کے موقع پر میرے اباجی کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کوئی نہ تھا۔‘‘اور جنگ بدر میں سائبان کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔‘‘ [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ] فرمایا: ’’میں سب لوگوں سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال او ررفاقت کاممنون ہوں ۔اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔‘‘ [2] یہ سب سے صحیح ترین اور مشہور حدیث ہے جسے کئی صحیح اسناد سے صحاح ستہ میں روایت کیا گیا ہے ۔ صحیحین میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اسی دوران ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑے ہوئے اور اپنے دونوں زانوں ننگے کیے ہوئے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہارا ساتھی کسی سے جھگڑ پڑا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کے بعد عرض کیا: میرے اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تنازع تھا۔ میں نے جلد بازی سے کام لیا، پھر مجھے ندامت کا احساس ہوا تو میں نے کہا:’’ معاف کردیجیے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے، میں اس مقصد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: اے ابوبکر! اﷲ تمھیں معاف فرمائے۔‘‘ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر کو آئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ پاکر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈر کردوبار کہا:اے اﷲ کے رسول! مجھ سے زیادتی سرزد ہو ئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اﷲتعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا۔ تم نے مجھے جھٹلایا، مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے میری ہمدردی کی۔ اب کیا تم میرے رفیق کو میرے لیے رہنے دو گے یا نہیں ؟ ‘‘ آپ نے دو مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے رنج نہ پہنچایا۔‘‘ [3]
[1] صحیح مسلم ، کتاب المساجد۔ باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ(ح:۶۸۱)، مطولاً۔