کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 371
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کوئی ایک فتوی بھی ایسا منقول نہیں جو نص کے خلاف ہو۔جبکہ حضرت عمر‘حضرت علی کے علاوہ دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسے فتاوی منقول ہیں جو نصوص کے خلاف ہیں ۔حتی کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف پر ایک مجلد کتاب لکھی ہے۔ اور امام محمد بن نصر المروزی نے ان اختلافات پر ایک بڑی کتاب لکھی ہے۔صحابہ کرام کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کیساتھ دادا کی میراث میں اختلاف ہوا ہے ‘ مگر حق بات وہی ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمائی ہے۔ہم نے یہ مسئلہ ایک مستقل کتاب میں بیان کردیاہے۔اس میں ہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کے صحیح ہونے کی دس وجوہات بیان کی ہیں ۔ جب کہ جمہور صحابہ میں سے دس سے زائد حضرات اس مسئلہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں ۔ جن لوگوں سے اختلاف نقل کیا گیا ہے ‘ ان میں حضرت زیداورابن مسعود رضی اللہ عنہما شامل ہیں اور ان کے اقوال بھی اضطراب کا شکار ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ حق بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ [فضائل شیخین]: بہت سے علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے۔ ان اجماع نقل کرنے والوں میں شافعیہ کے ایک بڑے امام منصور بن عبد الجبار سمعانی مروزی کا نام بھی شامل ہے۔آپ اپنی کتاب ’’ تقویم الادلہ‘‘ میں کہتے ہیں :’’ علماء اہل سنت کا اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے عالم تھے۔‘‘ اور ایسے ہوتا بھی کیوں نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں فتوی دیتے ؛ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے؛ برائی سے منع کرتے ؛ خطبہ ارشاد فرمایا کرتے ۔ آپ ایسا اس وقت کیا کرتے جب آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے نکلتے۔ اور جب آپ نے ہجرت کی۔او رحنین کے موقعہ پر اور دیگر مغازی میں بھی ایسا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اورآپ کے فرمودات کو برقرار رکھا۔یہ مرتبہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل فقہ و رائے سے مشورہ کرتے وقت شوری میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو دوسروں پر مقدم رکھا کرتے تھے۔یہی وہ دو شخصیات تھیں جو علمی مسائل میں گفتگو کیا کرتے تھے؛اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کو باقی تمام صحابہ پر مقدم کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر بدر کے جنگی قیدیوں کے متعلق اوردیگر امور میں مشورہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے حق میں فرمایا: ’’ جب تم دونوں کسی بات پر متفق ہو جاؤگے تو میں تمہاری مخالفت نہیں کیا کروں گا۔‘‘[1] سنن میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے بعد حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کرو۔‘‘ [2]
[1] صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم ، سدوا الابواب الا باب ابی بکر(ح:۳۶۵۴)، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲) [2] مصنف عبد الرزاق،(۱۹۱۹۰)، سنن الدارمی(۳؍۳۶۵۔۳۶۶)، سنن کبرٰی بیہقی(۶؍۲۲۴) [3] سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار (ح:۱۵۲۱)، سنن ترمذی کتاب الصلاۃ، ۔ باب ما جاء فی الصلاۃ عند التوبۃ(ح:۴۰۶)، سنن ابن ماجۃ۔ کتاب اقامۃ الصلوات،باب ما جاء فی صلاۃ کفارۃ(ح:۱۳۹۵)۔