کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 369
٭ شیعہ مصنف کہتا ہے کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے ایک ہزار غلام آزاد کیے تھے۔‘‘ یہ صریح کذب ہے اور اسے ایک جاہل شخص ہی تسلیم کر سکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار تو کیا ایک سو غلام بھی آزاد نہیں کیے تھے۔ بلکہ اپنی کمائی سے آپ اس کا عشر عشیر بھی انجام نہیں دے سکتے تھے۔اس لیے کہ آپ کوئی فن نہیں جانتے تھے کہ آپ کمائی کرتے ہوں ۔ آپ زیادہ تر یاتوجہاد میں مشغول رہتے تھے یا بعض دوسرے امور میں ۔[آپ کوئی تجارت بھی نہیں کرتے تھے۔ صنعت و حرفت سے ناآشنا تھے، پھر ایک ہزار غلام آزاد کرنا آپ کے لیے کیوں کر ممکن تھا]؟ [اشکال] :شیعہ کا یہ قول کہ ’’ علی رضی اللہ عنہ مزدوری کرکے شعب ابی طالب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کیا کرتے تھے۔‘‘ [جواب]: یہ کئی وجوہات کی بنا پر صریح کذب ہے۔ پہلی وجہ:....بنو ہاشم شعب ابی طالب سے باہر نہیں نکلا کرتے تھے۔اوروہاں اندر ایسا کوئی شخص نہ تھا جو اجرت دے کر ان سے کام لیتا ۔ دوسری وجہ:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والدابو طالب بھی گھاٹی میں موجود تھے؛ وہ ان پر خرچ کیا کرتے تھے۔ تیسری وجہ:....حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بڑی مال دار خاتون تھیں ، وہ اپنا مال خرچ کرتی تھیں ۔ چوتھی وجہ:....حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے کبھی بھی مکہ میں مزدوری نہیں کی۔مزید براں شعب ابی طالب کی محصوری کے زمانہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ چھوٹے تھے ؛ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی؛ یا تو ابھی بالغ ہوئے تھے؛ یا پھر حد بلوغت کو بھی نہیں پہنچے تھے[ اور آپ کسی مزدوری کے قابل نہ تھے]بلکہ وہاں آپ پر خرچ کیا جاتا تھا۔یہ خرچ یا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے یا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد محترم۔ اس وقت آپ اس مرحلہ میں بھی نہیں پہنچے تھے کہ اپنے آپ پر خرچ کرتے تو پھر کسی دوسرے پر کیسے خرچ کرسکتے تھے۔ نقل متواتر سے ثابت ہے کہ شعب ابی طالب میں حصار کا واقعہ ابو طالب کی زندگی میں پیش آیا تھا۔ اور ابو طالب کا انتقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف جانے سے پہلے ہواتھا۔اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے ۔ ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موت کے واقعات قریب قریب کے اوقات کے ہیں ۔جبکہ شعب ابی طالب میں دخول شروع اسلام کا واقعہ ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی پیدائش شعب ابی طالب میں حصار کے دوران ہوئی۔او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوا تو ابھی ابن عباس بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہجرت کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے ۔ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔بعث نبوی ہجرت سے تیرہ سال پہلے ہوئی تھی۔ بوقت وفات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیادہ سے زیادہ عمر تریسٹھ سال تھی۔ پس اسلام کے وقت آپ کی حد سے زیادہ عمر دس سال ہوسکتی ہے۔
[1] محمد باقر اصبہانی(۱۰۳۷۔۱۱۱۰) نے ادعیہ ماثورہ پر مشتمل ایک کتاب ’’ زاد المعاد ‘‘ نامی ۱۱۰۷ھـ میں شاہ حسین صفوی کے لیے تصنیف کی تھی۔ یہ کتاب خلاف دین اکاذیب کا مجموعہ ہے۔