کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 366
تھا وہ اللہ کی راہ میں وقف کردیا تھا۔[ آپ کی کوئی زرعی اراضی نہیں تھی۔ جب شہادت پائی تو اس وقت اسّی ہزار کے مقروض تھے۔]اس کے علاوہ آپ کی کوئی زمین یا جائداد نہیں تھی۔جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زمین و جائداد ینبوع میں بھی تھی۔
فصل :....[حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کثرت عبادت]
[اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:....
دوم : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار تھے۔ دن بھر روزہ رکھتے اور راتوں کو قیام کیا کرتے تھے۔ نماز تہجد اور دن کے نوافل لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سیکھے تھے۔ آپ سارا وقت عبادات و وظائف میں بسر کیا کرتے تھے۔ شب و روز میں آپ ایک ہزار رکعات پڑھا کرتے تھے ۔آپ نے انتہائی ٹھنڈی راتوں میں بھی کبھی قیام اللیل ترک نہیں کیا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے حالت جنگ میں آپ کو دیکھا کہ سورج کا انتظار کررہے تھے ۔ میں نے پوچھا : اے امیر المؤمنین ! کیا ہورہا ہے ؟ آپ نے فرمایا: زوال کا انتظار کررہا ہوں تاکہ نماز پڑھ لوں ۔ میں نے کہا : اس وقت میں نماز ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ ہم تو نماز کی وجہ سے ان سے قتال کرتے ہیں ۔ سو آپ ان سخت اوقات و حالات میں بھی پہلے وقت میں نمازپڑھنے سے غافل نہیں ہوئے ۔‘‘ اور جب آپ اپنے جسم سے تیر وغیرہ نکالنا چاہتے تو اسے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ نماز شروع کرتے ؛ پھر آپ باقی تمام چیزوں سے غافل ہوکر صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ اور آپ کو کسی قسم کی تکلیف کا کوئی احساس نہ ہوتا ۔ آپ نے نماز اور زکوٰۃ کو جمع کیا ۔ آپ نے حالت رکوع میں صدقہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں قرآن نازل کیا جو قیامت تک پڑھا جاتا رہے گا ۔ اور آپ نے تین دن تک اپنی اور اپنے بچوں کی روزی صدقہ میں دی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :﴿ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِِنسَانِ﴾ ’’کیا انسان پرایسا وقت گزرا ہے۔‘‘[الدھر۱]
آپ نے دن اور رات میں ؛ خفیہ اور اعلانیہ طور پر صدقہ کیا ۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سر گوشی کی تو اس سے پہلے صدقہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں قرآن نازل کیا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے ایک ہزار غلام آزاد کیے، آپ مزدوری کرکے جو کچھ کماتے وہ شعب ابی طالب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خرچ کیا کرتے تھے۔جب آپ لوگوں میں سب سے بڑے عابد تھے ؛ تو آپ ہی افضل ہوئے ؛ لہٰذا آپ ہی امام بھی ہوں گے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: ہم کہتے ہیں :اس کلام میں اتنی من گھڑت اور جھوٹی باتیں ہیں جو صرف اس انسان پر مخفی رہ سکتی ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال سے پرلے درجے کا جاہل ہو۔ حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اور اس میں مدح کا کوئی پہلو بھی نہیں ؛ اورنہ ہی اس طرح کی عام جھوٹی کہانیوں میں کوئی فائدہ ہوتا ہے۔
شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ : ’’ آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام کرتے تھے ۔‘‘یہ محض جھوٹ اور آپ پر الزام ہے۔ اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گزر چکا ہے کہ آپ نے فرمایا:’’لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی