کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 365
بیٹے کا حصہ ان کے ہم مثلوں سے کم رکھنے ؛ اور آپ کے خشک و سوکھی روٹی کھانے کے بارے میں بھی جانتا ہے اسے پتہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی وہ ہستی تھے جنہوں نے قیصر و کسری کے خزانے تقسیم کیے۔ جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ تقسیم کرتے تھے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتوحات کا ایک جزء تھا۔او رحضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ پر اسی ہزار درھم قرض تھا۔یہ معلومات رکھنے والا جانتا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑے زاہد تھے ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بڑے زاہد تھے۔ فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ عدیم المثال تھے [اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ خلاصہ کلام ! حضرت علی رضی اللہ عنہ زہد میں عدیم المثال تھے،نہ ہی کوئی آپ کے مقام کو پاسکا اور نہ ہی کوئی آپ سے سبقت حاصل کرسکا؛جب آپ ہی سب سے بڑے زاہد تھے توآپ ہی خلیفہ ہوں گے؛ اس لیے کہ مفضول کو تقدیم دینا ممتنع ہے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ :’’یہ دونوں احتمال باطل ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر زاہد نہ تھے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جوکوئی زاہد تر ہو وہ امام و خلیفہ بننے کا زیادہ حق دار ہو۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اوران کے اہل خانہ کے پاس اتنا مال اور غلام تھے جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے پاس نہیں تھا۔ عبد اللہ بن احمد نے روایت کیا ہے ‘ وہ کہتے ہیں :ہم سے علی بن حکیم نے بیان کیا ‘ان سے شریک نے حدیث بیان کی ؛ وہ عاصم بن کلیب سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ حضرت محمد بن کعب رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا:’’ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا؛ اور اپنے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر باندھا کرتا تھا۔ اور آج میرے مال کی زکوٰۃ چالیس ہزار تک پہنچتی ہے۔‘‘[سبق تخریجہ یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے ؛ لیکن اس روایت کے مقابلہ میں بہتر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ عراق میں بھی جو کی سوکھی روٹی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کھایا کرتے تھے ۔ اس لیے کہ اس روایت کی تو کوئی سند ہی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کامال حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مال سے بہت زیادہ تھا۔ اگر صرف اسی چیز میں مقابلہ کیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی اولاد کو کیا دیتے اور اہل بیت کو کیا دیتے تھے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ تمام قریش سے زیادہ حضرات اہل بیت کو دیا کرتے تھے۔ آپ بنی عدی یا بنی تیم یا قریش کی کسی دوسری شاخ میں اتنا مال تقسیم نہیں کرتے تھے جنتا اہل بیت نبوت میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ بس صرف یہی ایک بات بھی اس دلیل کے لیے کافی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس وسیع مال موجود تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوقاف مشہور تھے ۔ کیا جس انسان کے پاس کچھ بھی موجود نہ ہو وہ وقف کرسکتا ہے؟ [نیز یہ کہ آپ نے اپنی وفات کے وقت بہت سے غلام لونڈیاں اور کثیر جائداد چھوڑی تھی۔البتہ نقدی صرف سات سو درہم تھی]۔ دوسری طرف حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ فتح خیبر کے موقع پر مال غنیمت سے جو حصہ ملا
[1] آپ نے فرمایا :تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے رکھ کیونکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت داد علیہ السلام کے روزے کس طرح تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مہینے ایک قرآن مجید ختم کیا کر میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تو اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا بیس دنوں میں ایک قرآن مجید پڑھ لیا کر میں نے عرض کیا میں تو اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ دس دن میں ایک قرآن مجید پڑھ لیا کر میں نے عرض کیا میں تو اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو سات دن میں ایک قرآن مجید پڑھ لیا کر اور اس سے زیادہ اپنے آپ کو مشقت میں مت ڈال ۔ اور ایسے ہی روزہ کے بارے میں کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ [صحیح بخاری:ج3:ح 1087]  البخاری، کتاب الجہاد۔ باب ما جاء فی حلیۃ السیوف(حدیث:۲۹۰۹)