کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 364
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ گمان کہاں تک صحیح ہوسکتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منحرف ہو گئے تھے ؟ اور یہ انحراف آپ کے مناقب میں بھی شمار ہونے لگا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بے رغبتی کرنے میں مدح کا کون سا پہلو ہے ؟ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں تھے ؛ اس وقت بھی آپ بغیر سالن کے جو کی خشک روٹی ہی کھایا کرتے تھے ؛ گندم کی روٹی یا گوشت نہیں کھایا کرتے تھے۔جب کہ متواتر نقول اس کے خلاف ہیں ۔ پھر کیا دیگر صحابہ کرام میں سے بھی کسی ایک نے ایسے کیا ہے ؟ یا ان میں سے کسی ایک نے ایسا کرنے کو مستحب کہا ہے؟[ بخلاف ازیں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کی ذکر کردہ یہ بات غلط ہے]۔ [اشکال] :شیعہ کا یہ قول کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار کی پیٹی اور نعل کھجور کی چھال سے بنے ہوئے تھے۔‘‘ [جواب]: یہ بھی صاف جھوٹ ہے،اور اس میں مدح کا کوئی پہلو بھی نہیں ہے۔ پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارک چمڑے کی؛ اور تلوار کا نیام چاندی کا بنا ہوا تھا؛ جس پر سونے کی زرکاری کی گئی تھی۔ جب اﷲتعالیٰ نے ان کو خوش حالی و فارغ البالی سے نوازا تھا۔ تلوار کے لیے چمڑے کی پیٹی بنانے میں کیا مضائقہ تھا۔ خصوصاً جب کہ حجاز میں چمڑے کی فراوانی ہے، یہ بات قابل تعریف تب ہوتی اگر چمڑا نایاب ہوتا۔ جیسے حضرت ابوامامہ الباھلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جب مختلف بلاد و امصار کو اس قوم نے فتح کیا تو ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے گھوڑوں کی باگ ڈور رسیوں سے بنی ہوتی تھی اور جن کی رکابیں پٹھوں سے تیار کی جاتی تھیں ۔‘‘ [1] حدیث عمار ایک موضوع روایت ہے ؛ جبکہ سوید بن غفلہ کی روایت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع نہیں ہے۔ [اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کپڑے خریدے ........‘‘ [جواب]: یہ حدیث معروف ہے۔ایسے ہی ضرار بن ضمرہ والی روایت بھی نقل کی گئی ہے ۔ ان میں سے کسی ایک روایت میں بھی کوئی ایک ایسی چیز نہیں ہے جس سے آپ کا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر زاہد ہونا ثابت ہوتا ہو۔بلکہ جو انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی منقول سیرت کا جانکاراور آپ کے زہد و عدل ؛ ولایت سے اپنے اقارب کی دوری ؛ اور اپنے
[1] دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب الاطعمۃ و کتاب الاشربۃ نیز صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، وغیرہ۔ [2] البخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح(حدیث:۵۰۶۳)، صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح، (حدیث:۱۴۰۱)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ تم کہتے ہوکہ میں جب تک زندہ ہوں ہمیشہ رات کو قیام کروں گا ۔اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: کیا مجھے خبر نہیں دی گئی تو رات عبادت کرتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے میں نے کہا جی ہاں ۔یا رسول اللہ!اس سے میں صرف خیر اور بھلائی ہی چاہتا ہوں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :آپ کے لیے مہینے میں صرف تین دن روزہ رکھ لینا ہی کافی ہے۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ تو(