کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 361
’’ اے علی! اﷲتعالیٰ نے تجھے ایسی زینت سے مزین کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر اپنے نزدیک محبوب زینت سے کسی دوسرے انسان کو مزین نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ نے تجھے زہد سے نوازا ہے ؛ دنیا کو تمہاری نگاہ میں [بے وقعت اور] مبغوض کر دیاہے۔ آپ کے لیے فقراء کو محبوب بنادیا گیااور تم ان میں سے اپنے متبعین پرراضی ہوگئے۔ اور وہ تجھے اپنا امام ماننے پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں ۔اے علی! اس شخص کے لیے بشارت ہو جو تجھ سے محبت رکھے ا ور تیرے بارے میں سچی بات کہے۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو تجھ سے بغض رکھے اور تجھ پر جھوٹ باندھے۔‘‘ سُوَید بن غفلہ کا بیان ہے کہ میں عصر کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے کھٹا دودھ پڑا ہے جس میں سے کھٹی بُو آرہی تھی۔ آپ کے ہاتھ میں روٹی تھی جس پر جَو کے چھلکے لگے تھے جو میں آپ کے چہرہ پر دیکھ رہا تھا۔کبھی آپ اسے اپنے ہاتھ سے توڑتے اوراگر ایسا نہ کرسکتے تو اپنے گھٹنے سے توڑتے اورپھر اس دودھ میں ڈال دیتے۔آپ نے فرمایا: ’’آگے آؤ اور ہمارے ساتھ یہ کھانا کھاؤ۔میں نے کہا: میں روزہ سے ہوں ۔توآپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرمارہے تھے : ’’ جس انسان کو روزہ اس کے پسندیدہ کھانے سے روک دے‘ اللہ تعالیٰ اسے جنت سے کھانا کھلائیگا اور پانی پلائے گا۔‘‘ آپ کہتے ہیں : میں نے آپ کی ایک لونڈی سے کہا جو کہ وہاں قریب کھڑی تھی؛ اے فضہ ! تمہارے لیے ہلاکت ہو! کیا تم اس شیخ کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتیں ؟ کیا آپ ان کے لیے آٹا چھان نہیں لیتیں ؟ تو اس نے جواب دیا:’’آپ نے ہم سے عہد لیاہے کہ ہم آپ کے لیے آٹا نہ چھانیں ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا: تم نے لونڈی سے کیا کہا؟تو میں نے آپ کو وہ بات بتادی ۔ آپ فرمانے لگے : ’’ میرے ماں باپ اس ہستی پر قربان ہوں جس کے لیے کبھی آٹا نہیں چھانا گیا اور نہ ہی کبھی تین دن تک گندم کی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا کھایاحتی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا۔‘‘ ایسے ہی آپ نے ایک دن دو موٹی قمیصیں خریدیں ؛اور اپنے غلام قنبر کو ان میں سے ایک قمیص چن لینے کا اختیار دیا۔ اس نے ایک قمیص اٹھالی اور دوسری آپ نے پہن لی۔آپ نے دیکھا کہ اس کے بازو آپ کی انگلیوں سے آگے تک لمبے ہیں تو آپ نے بازو کاٹ کر چھوٹے کردیئے۔‘‘ ضراربن ضمرہ کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کیجیے۔ میں نے کہا: ’’ مجھے اس سے معاف رکھیئے۔انہوں نے دوبارہ کہا: آپ کو لازمی ایسا کرنا ہوگا۔ میں نے کہا: اگر ایسا کرنا ضروری ہی ہے توسنو! حضرت علی رضی اللہ عنہ بڑے دور اندیش اورعالی ہمت اور طاقتور
[1] یہ شیعہ کا دعویٰ ہے۔ شیعہ کا مذہب و مسلک ائمہ کے بارے میں اسی پر مبنی ہے۔ بخلاف ازیں مسند احمد(۱؍۱۳۰)،حدیث نمبر:۱۰۷۸، میں بروایت عبد اﷲ بن سبع منقول ہے کہ میں نے سیدنا علی سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ مجھے قتل کیا جائے گا۔ لوگوں نے کہا: ’’پھر ہم پر خلیفہ مقرر فرمائیے۔ فرمایا:’’ نہیں میں تمھیں اسی طرح چھوڑ کر جا رہا ہوں جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے۔ اسی طرح مسند احمد (۱؍۱۵۶)،حدیث: ۱۳۳۹، میں تحریر ہے۔ البدایہ والنہایۃ(۵؍۲۵۰۔۲۵۱) پر شقیق بن سلمہ تابعی نیز کتاب مذکور(۷؍۳۲۳) پر ثعلبہ بن یزید رافضی سے اسی طرح مروی ہے۔ نیز ملاحظہ فرمائیے۔ السنن الکبریٰ بیہقی(۸؍۱۴۹)۔