کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 360
میں ہوتاہے۔اور نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے عبداللہ کو یہ منصب عطا کیا؛ حالانکہ آپ کا شمار فاضل صحابہ کرام میں ہوتا ہے ۔ اور بعض لوگ عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کا اہل تصور کرتے تھے؛ اور آپ ایسے تھے بھی۔ اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں خلیفہ مقرر کردیتے تو کسی شخص کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوتا۔ تاہم آپ نے اس سے احتراز کیا۔ [حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صلہ رحمی]: بخلاف ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب کو عہدہ ہائے جلیلہ تفویض کیے تھے۔ چنانچہ آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا‘ عبید اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یمن کا‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹوں قثم و معبد کو مکہ و مدینہ کا حاکم بنایا۔ اپنے بھانجے جعدہ بن ہبیرہ [ام ہانی بنت ابی طالب کے بیٹے ہیں ]کو خراسان اور اپنے لے پالک اور بیٹے کے بھائی محمد بن ابی بکر کو حاکم مصر مقرر کیا تھا۔ آپ نے اپنے بعد اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اظہار خوشنودی کیا تھا۔[1]ہم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اہلیت و صلاحیت اور استحقاق ِ خلافت کا انکار نہیں کرتے اورنہ ہی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے استحقاق خلافت کا انکارکرتے ہیں ۔تو پھر کوفہ کی امارت کیا چیز ہے؟ البتہ یہ ضرورکہتے ہیں کہ:زہدیہ بھی تھا کہ عبد اللہ بن عمراور عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہم کی طرح؛ جن پر لوگ متفق بھی تھے؛ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بھی اسی طرح کا زہد ہوتا۔ اور جس طرح طلحہ بن عبیداللہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو عامل مقرر نہیں کیا گیا تھا؛[ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے اقارب کو بھی عہدے تفویض نہ کرتے]۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ دنیا اور اس کی ہرقسم کی لذات سے ہر طرح سے بے نیاز و زاہد تھے۔دلائل و براہین سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما آپ سے بڑھ کر زاہد اور تارک دنیا تھے۔ ان کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مباحات سے استفادہ کیا کرتے تھے۔ [حضرت علی رضی اللہ عنہ کا زہد] [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دنیا کو تین طلاقیں دے رکھی تھیں ۔ آپ جَو کا دلیا کھاتے؛ اوراسے ختم کیا کرتے تھے تاکہ آپ کے بیٹے اس میں سالن نہ ڈال دیں ۔آپ کھردرا اور چھوٹا لباس پہنا کرتے تھے۔آپ کے کوٹ کو پیوند لگے تھے۔یہاں تک کہ آپ کے بیٹوں کو اس پیوند کی وجہ سے حیاء آتی تھی۔ آپ کی تلوار کی پیٹی اور نعل کھجور کی چھال سے بنے ہوئے تھے۔یہی حال آپ کے نعلین کا بھی تھا۔ خطیب خوارزمی نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے: