کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 359
کے باب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بلند مقام پر فائز تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مالِ حلال کو وسعت دی ۔ جب آپ کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی چاربیویاں تھیں اور انیس لونڈیاں ۔ خدام اور غلام ان کے علاوہ تھے۔اوروفات کے وقت آپ کی اولاد بچوں اور بچیوں کی تعداد چوبیس تھی۔ اور ان کے لیے اتنی تعداد میں باغات اور زمینیں چھوڑیں جن کی وجہ سے ان کا شمار خاندان کے دولت مند اور خوش حال ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ یہ بات اتنی مشہور ہے کہ تاریخ و حقائق کا ادنی علم رکھنے والا انسان بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا۔آپ کی جملہ جاگیروں میں سے ینبع کی جاگیر بھی تھی۔[امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ] :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اراضی میں سے ایک ینبع کی جاگیر تھی،جوکہ آپ نے صدقہ کردی تھی؛ جہاں سے باقی غلہ کے علاوہ ایک ہزار وَسق کھجور کی آمدنی ہوتی تھی۔‘‘
جب کہ بچوں اور خدام و حشم کی طرف آپ کا میلان بھی اتنا ظاہر ہے کہ بیان کی ضرورت نہیں ۔اوریہ اس قدر مشہور بات ہے کہ کسی ادنی علم رکھنے والے کو بھی اس سے مجال انکار نہیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اقارب میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ شامل تھے جوکہ سابقین اولین و مہاجرین [ اورعشرہ مبشرہ] میں شمار ہوتے تھے۔آپ کو فضائل اسلام کے ہرباب میں فضیلت حاصل تھی۔اور آپ کے بیٹوں میں عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جیسے ہونہار بھی تھے۔ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحبت ؛ ہجرت اورسابق اسلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔آپ کی فضیلت صاف ظاہر ہے۔مگر اس کے باوجود آپ نے ان میں سے کسی کو بھی کسی علاقہ کا عامل مقرر نہیں کیا تھا۔ حالانکہ آپ کے عہد خلافت میں یمن اپنی پوری وسعت اور کثرت مال کے ساتھ ؛ مکہ و مدینہ و خیبر و بحرین و حضر موت و عمان و طائف و یمامہ اورحجازکے تمام علاقے آپ کے زیر تسلط تھے۔ اگر آپ ان میں سے کسی ایک کو عامل مقرر کرتے تو وہ اس کے اہل بھی تھے۔ لیکن آپ کے دل میں محبت کا خوف تھا ؛ کہیں وہ ذرا بھر بھی خواہشات کی طرف مائل نہ ہوجائیں ۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے نقش قدم پر چلے اور اپنے قبیلہ بنی عدی میں سے کسی کو بھی اتنے وسیع اور بڑے ملک میں کسی عہدہ پر مقرر نہیں کیا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام و مصر اور عراق سے لے کرفارس کی تمام شاہی اورخراسان تک تمام علاقے فتح کر لیے تھے۔ آپ نے اپنے قبیلہ کے نعمان بن عدی کومیسان کا عامل مقرر کیا تھا مگر جلد ہی اسے اس منصب سے معزول کردیا۔
حالانکہ بنی عدی میں اتنے مہاجرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے کہ قریش کی کسی دوسری شاخ میں اتنے مہاجر نہیں تھے۔ اس لیے کہ بنی عدی میں سے کوئی ایک بھی مکہ میں باقی نہیں بچا تھا؛ سارے لوگ مدینہ ہجرت کر گئے تھے۔ان میں سعید بن زید بھی تھے جوکہ سابقین اولین اور مہاجرین صحابہ میں سے تھے۔اور ابوجہم بن حذیفہ و خارجہ بن حذیفہ و معمر بن عبد اﷲاور ان کے بیٹے اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہم جیسے لوگ موجود تھے۔
پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بعد اپنے بیٹے کو منصب خلافت پر فائز نہیں کیا تھا ؛حالانکہ اس کا شمار صحابہ کرام