کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 358
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیشک بہت بڑے زاہد تھے ؛ مگر ان کے زہد کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زہد سے نسبت ہی کیا ہے؟علامہ ابن جزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کہنے والے کہتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت بڑے زاہد تھے‘ ‘ ۔ یہ کسی جاہل نے جھوٹ بولا ہے ۔زہدکے معنی ہیں :انسان کا دل شہرت و مال ؛ لذات و عیش اورخدم و حشم کی خواہش سے رو گردانی کرنااور اسکے سوا زہد کا اور کوئی مطلب نہیں ۔ زہد کا معنی اسی انسان پر صادق آتا ہے جسکے اندر یہ اوصاف موجود ہوں ۔ مال کی محبت سے بیگانگی کے بارے میں اگر بات ہوتو ہر انسان جسے صحیح روایت کی ذرا بھر بھی اطلاع ہو تو وہ جانتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے بہت بڑے مال دار تھے۔آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ:’’آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے؛ جو سب کے سب اللہ کی راہ میں خرچ کیے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے ان مساکین اورکمزور مسلمانوں کو خرید کرآزاد کیا جنہیں ایمان لانے کے جرم میں سزا دی جاتی تھی۔آپ نے کوئی ایسا سخت کوش غلام آزاد نہیں کیا جو آپ کی حفاظت کرے ‘ بلکہ وہ لوگ آزاد کیے جو کمزور تھے اور انہیں اللہ کی راہ میں تکلیف دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس صرف چھ ہزار درہم باقی بچ گئے تھے۔ وہ سب آپ نے اپنے ساتھ رکھ لیے [تاکہ سفر میں کام آئیں گے ]۔ ان میں سے ایک درہم بھی اپنے بچوں کے لیے نہیں چھوڑا۔ اور پھر یہ سارے درہم اللہ کی راہ میں خرچ کرڈالے۔اوران میں سے ایک درہم بھی آپ کے پاس باقی نہیں بچا۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس صرف ایک جبہ باقی بچ گیا تھا ۔جب آپ کہیں پر پڑاؤ ڈالتے تو اسے اپنے لیے بطور بستر بچھالیتے؛ اور جب اٹھ جاتے تو اسے اپنے جسم پر پہن لیتے۔ جب کہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مال بھی جمع کیا اور بڑی بڑی جائدادیں بھی خریدیں ۔ کئی لوگوں کی یہ جائدادیں ضائع بھی ہوگئیں ؛ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اللہ کی رضاکو ترجیح دی اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کیا ۔ اوروہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کیے جانے والے مال کی نسبت اپنے پاس بچ جانے والے مال سے زیادہ بے رغبت تھے۔ پھر جب آپ خلافت پر متمکن ہوئے تو نہ ہی آپ نے کوئی لونڈی رکھی اور نہ ہی مال کو وسعت دی۔ اللہ کے مال [بیت المال] میں سے جو کچھ اپنے نفس اور اولاد پر خرچ کیا تھا مرتے وقت اس کا شمار کیا؛ تواس سے آپ کے حق کا کچھ حصہ ہی پورا ہوسکتا تھا۔مگر پھر بھی آپ نے حکم دیا کہ آپ کو جو حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد اورغزوات کے مال غنیمت اور دیگر تقسیم میں سے ملا ہے ‘ اس سے یہ مال نکال کر بیت المال میں واپس جمع کرادیا جائے۔ مال و دولت اور لذات سے یہ وہ حقیقی زہدتھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کوئی ایک اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی کوئی دوسرا صحابی ۔ ہاں مہاجرین [اورسابقین ]اولین میں سے حضرت ابوذر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما اس کے کسی قدر قریب ہیں ؛ اس لیے کہ وہ اسی راہ پر چلتے رہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گامزن تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد زہد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ تھا پھر حضرت ابوعبیدہ اور ابو ذر کا۔مال و دولت سے زہد