کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 357
پھر آپ نے اپنا مال بیت المال میں چھوڑ دیا۔پھر جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:’’ ان کامسلمانوں کے بیت المال سے لیا ہوا مال بیت المال کو واپس کردیا جائے ۔‘‘
بعد میں جب اس کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک مشک تھی جس کی قیمت پانچ درہم بھی نہیں بنتی تھی۔اور ایک حبشن لونڈی تھی جو کہ اپنے بچے کو دودھ پلارہی تھی۔ اور ایک حبشی غلام تھا اور ایک اونٹ ۔ آپ نے یہ سامان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا ۔تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عیال سے یہ مال بھی واپس لے لیا جائے گا؟
نہیں رب کعبہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوگا؛ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں بھی بڑی تکالیف اٹھائی ہیں ۔ اب ان چیزوں کی قیمت میں ادا کر دوں گا [اوریہ مال ابوبکر کے گھر واپس بھیج دیا جائے ]۔
بعض علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ توبڑے زاہد تھے ؛ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے بڑے زاہد تھے ۔ اس لیے کہ اسلام کے شروع میں آپ کا بہت بڑا مال اور بڑی وسیع تجارت تھی؛ جسے آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ؛ اور خلافت کے دروان آپ کی یہ حالت تھی۔یہاں تک کہ آپ کے پاس جو بیت المال کا مال باقی بچ گیا تھا وہ بھی آپ نے واپس کردیا۔ ابن زنجویہ [ان کا نام حمید بن مخلد ہے یہ بڑے ثقہ راوی اور حافظ حدیث تھے۔ ۲۴۷ھ میں وفات پائی] فرماتے ہیں :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ آغاز اسلام میں تنگ دست تھے۔آپ پر خرچ کیا جاتا تھا؛ آپ کسی پرخرچ نہیں کرسکتے تھے۔ پھر آپ نے مال سے فائدہ اٹھایا ؛ زرعی اراضی ، مکانات اور کھجور کے باغات اور اوقاف خرید لیے تھے۔ وفات کے وقت آپ کے ہاں چار بیویاں اور انیس لونڈیاں تھیں ۔‘‘
یہ تمام چیزیں آپ کے لیے مباح تھیں ۔ وللہ الحمد ۔ اور جو مال آپ نے چھوڑا تھا اسے بیت المال میں واپس کرنے کا حکم بھی نہیں دیا۔آپ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد کوئی سونا اور چاندی نہیں چھوڑا۔ سوائے سات سو درہم کے جو کہ آپ کے عطایا میں سے باقی بچ گئے ہیں ۔‘‘
اسود بن عامر کہتے ہیں : ہم سے شریک نخعی نے حدیث بیان کی ؛ اس نے عاصم بن کلیب سے نقل کیا؛ آپ محمد بن کعب القرظی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں عہد رسالت میں بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے رہتا تھا۔ اور آج میری ثروت کا یہ عالم ہے کہ میرے مال کی زکوٰۃ چالیس ہزار تک پہنچتی ہے۔‘‘ [رواہ احمد عن حجاج]
ابراہیم بن سعید جوہری روایت کرتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ میرے مال کی زکوٰۃ چار ہزار دینار تک پہنچتی ہے۔‘‘
[1] ابوداؤد نے بسند صحیح ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے کہ میرے والد نے بتایا جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تھے تو آپ کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ (طبقات ابن سعد:۳؍۱۷۲، تاریخ الاسلام للذہبی،(عہد الخلفاء،ص:۱۰۷) عروہ کہتے ہیں مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو انھوں نے کوئی درہم ودینار پیچھے نہیں چھوڑا تھا۔ (طبقات ابن سعد:۳؍۱۹۵)، اسامہ بن زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تجارت میں مشہور تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ ان میں سے آپ غلام آزاد کرتے اور مسلمانوں کی امداد کیا کرتے تھے۔ جب مدینہ پہنچے تو ان میں سے کل پانچ ہزار درہم بچے تھے۔ آپ یہ سرمایہ نیک کاموں پر صرف کیا کرتے تھے۔ (طبقات ابن سعد(۳؍۱۷۲)، من طریق الواقدی)