کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 356
چوتھا منہج : احوال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے امامت پر استدلال فصل :....آپ بہت بڑے عابد و زاہد اور حد درجہ عالم و شجاع تھے [اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’منہج چہارم : وہ دلائل جو کہ آپ کی امامت پر دلالت کرتے ہیں ‘ اور وہ آپ کے احوال سے مستنبط ہیں ‘ ان کی تعداد بارہ ہے ۔‘‘ [پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے احوال سے آپ کی امامت پر استدلال کرتے ہوئے کہتا ہے]:’’ آپ بہت بڑے عابد و زاہد اور حد درجہ عالم و شجاع تھے۔‘‘ شیعہ مصنف نے اس ضمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چند خوارقِ عادات کا بھی ذکر کیا ہے۔اور آپ کے کئی فضائل کا ذکر بھی کیا ہے ‘ جن پر رد گزر چکا ہے۔ چنانچہ شیعہ مصنف لکھتا ہے : ’’ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑے زاہد تھے۔‘‘ [جواب]: ہم کہتے ہیں : یہ بات بالکل ممتنع ہے۔ جو لوگ حضرات صحابہ کے احوال جانتے ہیں ‘ انہیں علم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑے زاہد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے مالدار اور تاجر تھے؛اور آپ نے اپنا تمام تجارتی سرمایہ اﷲ کی راہ میں دے دیا تھا۔ جب آپ مسند آرائے خلافت ہوئے تو فروخت کے لیے چادریں اپنے کندھے پر ڈالے بازار جا رہے تھے کہ راستہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ؛ آپ اپنے بازوپر چادریں رکھے جارہے تھے۔آپ نے پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے ؟ توآپ نے فرمایا: ’’ تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اپنے بچوں کے لیے رزق کمانا چھوڑ دوں ؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی خبر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور مہاجرین صحابہ کو دی۔ انھوں نے آپ کا وظیفہ مقرر کیا۔ آپ نے حضرت عمر و ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما سے قسم لی [کہ کیا ان کے لیے یہ مال لینا حلال ہے ؟]۔تو انہوں نے حلف اٹھا کر بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ دو درہم یومیہ لینے کے مجاز ہیں ۔[1]