کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 355
ہوجاتا ہے۔ شروع اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کے ارادہ کے اسباب و تقاضے زیادہ قوی تھے۔ اس لیے کہ اس وقت میں آپ کے دشمن بہت زیادہ تھے اور آپ کے دوست و مدد گار بہت کم تھے۔ اور آپ کے دین کو غلبہ بھی حاصل نہیں تھااور اس وقت آپ کے ساتھ دشمنی کے امکانیات بہت قوی تھے۔ حتی کہ کوئی بھی انسان اپنی زبان سے یا ہاتھ سے تکلیف دینا چاہتا تو وہ براہ راست ایسا کرسکتا تھا۔ لیکن جب اسلام کی نشرو اشاعت ہوئی ۔ دشمنی کے تقاضے کمزور ہوگئے۔ اور دشمنی پر قدرت اور امکان بھی کمزور پڑ گیا۔اور یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ جس نے شروع میں دشمن ترک کی ہو؛ اور پھر بعد میں دشمنی کرنے لگ جائے تو ایسا صرف اس کے ارادہ اور امکان و قدرت میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا ہوگا۔ اوریہ بات معلوم شدہ ہے کہ شروع شروع میں دشمنی پر قدرت زیادہ قوی ہوسکتی تھی۔ اوراس وقت دشمن کے ارادہ کے موجبات بھی زیادہ اور اولی تھے۔ اور ان کے پاس کوئی ایسی نئی چیز بھی نہیں آئی جو ان کے ارادہ اور قدرت کی تبدیلی کو واجب کردے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کے ارادہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جو ان کے لیے دین سے ارتداد کو واجب کرتی ہو۔ اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد مرتد ہوئے وہ وہ لوگ تھے جو تلوا رکے خوف سے مسلمان ہوگئے تھے جیسے مسیلمہ کذاب کے ساتھی اوراہل نجد وغیرہ۔ جب کہ مہاجرین جو کہ اپنی خوشی اوررضامندی سے مسلمان ہوئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی مرتد نہیں ہوا۔ وللّٰہ الحمد۔ اہل مکہ جو کہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے؛ ان میں سے ایک گروہ نے مرتد ہونے کاارادہ کر لیا تھا؛ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت سہیل بن عمرو کی وجہ سے انہیں ثابت قدم رکھا۔اہل طائف جن کا محاصرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد کیا تھا۔ جب انہوں نے اسلام کو غالب ہوتے دیکھا تو وہ بھی مغلوبیت میں مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ ینے حضرت عثمان بن ابی العاص کے ذریعہ سے انہیں بھی اسلام پر ثابت قدم رکھا۔ جب کہ اہل مدینہ نبویہ کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا۔ اور ان میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ اور یہ تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر لوگوں سے جنگیں لڑیں ۔ یہ وجہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے کوئی ایک بھی مرتد نہیں ہوا۔ بلکہ ان میں سے غالب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کمزور پڑ گئے تھے اور ان کے دلوں میں جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں کچھ کمزوری آگئی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی دی۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ان کو قوت بخشی۔ اور لوگ اسی ایمان و یقین اور جہاد مع الکفار پر لوٹ آئے۔ پس تمام تر تعریفات اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہیں جس نے اسلام اور اہل اسلام پر صدیق امت کے ذریعہ احسان فرمایا۔ وہ صدیق جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زندگی میں بھی اس دین کی تائید فرمائی اور آپ کی وفات کے بعد بھی اس دین کی حفاظت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے بہترین بدلہ دیں ۔ آمین۔ ٭٭٭