کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 354
’’ اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں ، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں ، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں ۔ عنقریب ہم انھیں دوبار عذاب دیں گے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ نفاق کا ذکر صرف مدنی سورتوں میں آیا ہے۔ جب کہ مکی سورتوں میں منافقین کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ مکرمہ میں جو لوگ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔ اور نہ ہی مہاجرین میں کوئی ایک منافق تھا۔ بلکہ سارے کے سارے اللہ اور اس کے رسول پر سچا اور خالص ایمان رکھنے والے اور اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت کرنے والے تھے۔ اور اللہ اور اس کا رسول ان کے نزدیک اپنی جان و مال اور اپنے اہل و عیال ہر چیز سے بڑھ کر محبوب تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان میں سے اکثر پر یا کسی ایک پر یا بعض لوگوں پر یہ تہمت ضرور لگتی اوراس کے بارے میں علم بھی ہوجاتا۔ جیسا کہ رافضہ میں سے ایسی باتیں کہنے والے کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ اتنا بڑا بہتان ہے جو کہ در حقیقت خود رافضہ اور ان کے بھائیوں یہود کی صفت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رافضہ اور ان کے بھائیوں یہود میں نفاق بہت زیادہ اور ظاہر و غالب ہے۔اور کوئی دوسرا فرقہ ایسا نہیں جس میں اتنا زیادہ اور کھلم کھلا غالب نفاق پایا جاتا ہو۔ حتی کہ ان میں نصیریہ اسماعیلیہ اور ان کے امثال و ہمنوا وہ فرقے پائے جاتے ہیں جو تمام گروہوں سے بڑے منافق و زندیق اور اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والے ہیں ۔ یہی حال ان کے صحابہ کرام کے متعلق مرتد ہونے کے دعوی کا ہے۔ یہ سب سے بڑا جھوٹ اور بہتان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتد یا تو شبہ کی وجہ سے مرتد ہوتا ہے یا پھر شہوت کی وجہ سے ۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ شبہات اور شہوات شروع اسلام میں زیادہ اور طاقتور تھے۔ پس جن لوگوں کا ایمان اسلام کی کمزوری کے وقت پہاڑ جیسا ہو تو پھر ان کے ایمان کے بارے میں اسلام کے غالب ہونے اور پھیل جانے کے بعد کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟ جہاں تک شہوت کا تعلق ہے تو یہ شہوت خواہ حکومت کی ہو یا مال کی یا نکاح کی یا اس طرح کی دوسری چیز۔ تو اسلام کے شروع میں یہ امور اتباع کے زیادہ لائق تھے جب یہ لوگ اپنے گھر بار اور اموال چھوڑ کر اور اپنے جاہ و مرتبہ کو ٹھوکر مار اپنی رضامندی سے بغیر کسی جبرو اکراہ کے اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں نکل کھڑے ہوئے تو پھر ان کے بارے میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ مال وہ جاہ کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے تھے۔پھر یہ لوگ دشمن رکھنے پر قدرت رکھنے کی صورت میں ؛ اس کے باوجود دشمن کے مقتضیات اور اسباب موجود تھے؛ مگر انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی نہیں کی۔ بلکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول سے دوست رکھتے تھے۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے دشمن رکھنے والوں سے دشمن رکھتے تھے۔ پس جب اللہ تعالیٰ سے دوستی کے اسباب و مقتضیات مضبوط ہوگئے اور دشمنی رکھنے پر قدرت کے اسباب و امکانیات کمزور پڑگئے تو اب اس کا الٹ کریں گے۔ کیا ایسا گمان بھی کوئی انسان کرسکتا ہے سوائے اس کے جو پرلے درجے کا گمراہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب فعل کے ساتھ کمال قدرت اور کمال ارادہ بھی موجود ہو تو اس فعل کا حاصل ہونا واجب