کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 353
نسبت زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اور میں نے یہ بات ان کی کئی ایک کتابوں میں دیکھ ہے ۔ اوریہ قول اللہ کے نیک بندوں اور اللہ تعالیٰ کی کامیاب جماعت اور اس کے غالب لشکر پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اس کے فساد کے دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے کہا جائے گا کہ : یہ بات اضطراری طور پراور متواتر اخبار کی روشنی میں معلوم ہے کہ بلاشک وشبہ مہاجرین نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ اور جس گروہ نے ہجرت کی ان میں سے حضرت عثمان ؛ جعفر بن ابی طالب نے دو ہجرتیں کیں ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ کی طرف۔ اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور کفار کا رئے زمین پر غلبہ تھا۔ وہ ان مسلمانوں کو مکہ میں اذیت سے دوچار کرتے تھے۔ اور مسلمان اپنے قریبی مشرک رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں سے اتنی تکالیف اٹھاتے جس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ وہ ان تمام تر مصائب اور اذیتوں پر صبر کے پیکر رہے۔ اور تکالیف کا یہ کڑوا گھونٹ پیتے رہے۔حتی کہ اس راستے میں انہوں نے اپنے گھر بار دوست و احباب ہر چیز کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں جہاد فی سبیل اللہ میں چھوڑ دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کیا ہے کہ: ﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ﴾ (الحشر:۸) ’’(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔ وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں ۔‘‘ یہ سب کچھ ان کے اپنے اختیار اور رضامندی سے تھا۔اس پر انہیں کسی نے مجبورا نہیں کیا۔ اور نہ ہی کسی نے اس مقصد کے لیے ان پر کوئی سختی کی۔ بس اس وقت اسلام کمزور تھا ان کے پاس کوئی قوت نہیں تھی کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے۔اس وقت میں نبی کریم اور آپ کے اتباع کار اللہ کے حکم سے قتال سے روک دیے گئے تھے۔ اور انہیں حکم تھا کہ عفو و درگزر اور صبر سے کام لیں ۔ اس دور میں جن لوگوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے اپنے اختیار سے قبول کیا اور جنہوں نے ہجرت کی انہوں نے اپنے اختیار سے ہجرت کی۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دوسرے علمائے کرام فرماتے ہیں : مہاجرین میں کوئی ایک بھی منافق نہیں تھا۔ نفاق انصار کے بعض قبائل میں تھا۔ ایسا اس وقت ہوا جب مدینہ طیبہ میں اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ تو مدینہ کے گردونواح کے کچھ لوگ تقیہ کرتے ہوئے خوف کے مارے اسلام کا اظہار کرنے لگے یہ لوگ منافق تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُمْ سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ﴾[توبِۃ: 101]