کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 352
جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ مل کر جنگیں لڑیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ تینوں خلفا افضل ہوں ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان خلفا ثلاثہ کے عہد میں موجود تھے۔ اور اگر دوسروں کو چھوڑ کر آپ امامت کے مستحق ہوتے جیسا کہ رافضی کہتے ہیں ؛ یا پھر آپ ان سے افضل اور خلافت کے زیادہ حق دار ہوتے؛ جیسا کہ شیعہ میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں ۔ اور اس سے لازم آتا کہ افضل ترین مخلوق نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے روگردانی کر لی۔اوروہ کام کیا جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا؛ بلکہ اس سے منع کیا گیا تھا۔ اور پھر جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور آپ کے ساتھ مل کر قتال کیا؛ انہوں نے ہ اس حکم کی تعمیل کی جو ان کے لیے جاری ہوا تھا۔ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل کرنے والا اس انسان سے افضل ہوتا ہے جو ان کے احکام کی تعمیل نہ کرے۔ اورایسے کام کرے جن سے اللہ اور رسول نے منع کیا ہو۔ پس اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ : اگر شیعہ کا عقیدہ برحق ہوتا توحضرت علی کے پیروکاران افضل ہوتے۔ اور جب یہ لوگ افضل ٹھہرے اور ان کاامام خلفائے ثلاثہ کی نسبت افضل ٹھہرا؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ جو کچھ آپ نے کیا ہو وہ خلفائے ثلاثہ کے افعال سے افضل ہو۔حالانکہ یہ بات تواتر کے ساتھ معلوم شدہ اخبار و احوال کے خلاف ہے؛ اور یہ سارے بادیہ نشین اور شہروں کے مقیم جانتے ہیں ۔کیونکہ جو کچھ حضرات خلفائے ثلاثہ کے عہد میں ہوا؛ اسلام کو غلبہ اورشوکت نصیب ہوء؛ اس کے مدد گاروں میں اضافہ ہوا۔ اسلام خوب پھلا پھولا؛ پھیلا؛ اسے عزت نصیب ہوئی۔ مرتدین کا قلعہ قمع ہوا۔ اوراہل کتاب اور مجوس اور دوسرے کفار کو مغلوب کیا گیا۔ ایسا کچھ ان حضرات کے بعد نہیں ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے کئی سوابق حمیدہ اورمتعدد فضائل کی بنا پر فضل و شرف سے سرفراز کیا تھا۔ آپ کے شرف و فضل کی وجہ وہ واقعات اور حوادث نہیں تھے جو آپ کے عہد خلافت میں پیش آئے۔ بخلاف حضرت ابوبکر اور حضرت عمراور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان کی فضیلت سابقہ خصائل حمیدہ اور فضائل عدیدہ کے ساتھ ساتھ وہ اعمال بھی تھے جو ان حضرات کے عہد میں پیش آئے جیسے جہاد فی سبیل اللہ؛ اور قیصر و کسری کے خزانوں کا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ اور ان کے علاوہ دیگر لائق صد شکر و تحسین واقعات اور نیکیوں کے کام ۔اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سیرت و کردار اور اپنے باطن کے لحاظ سے حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی نسب بہت زیادہ افضل و اشرف تھے۔ یہ وجہ ہے کہ یہ حضرات ملامت سے بہت زیادہ دور تھے۔ اورعموم ثنا کے زیادہ مستحق تھے۔ حتی کہ ان کے دور میں کوئی فتنہ پیش نہیں آیا۔ ان حضرات کے زمانہ میں خوارج کی نہ ہی کوئی بات تھی۔ اور نہ ہی انہیں طاقت یا غلبہ حاصل تھا۔ بلکہ تمام مسلمانوں کی تلواریں کفار کے خلاف آویزاں تھیں ۔ اور اہل ایمان آگے بڑھ رہے تھے جب کہ اہل کفر پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے تھے۔ پھر یہ کہ روافض میں سے اکثر لوگ جہالت اور گمراہ کا شکار ہیں ۔ وہ [ان خلفا کے متعلق]کہتے ہیں : بیشک یہ خلفا اور ان کے ماننے والے کفار اور مرتدین تھے۔ اور یہ کہ یہود و نصاری ان سے زیادہ بہتر تھے۔ اس لیے کہ اصل کافر مرتد کی