کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 34
درد ناک عذاب میں مبتلاکر۔‘‘ ابھی وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچا تھا کہ ایک پتھر اس کے سر پر گر ااور دُبر سے نکل گیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ تب یہ آیت اتری:[اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]: ﴿سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ oلِّلْکٰفِرینَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ oمِّنَ اللّٰہِ﴾ [المعارج۱۔۳] ’’ ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں ۔اللہ کی طرف سے ۔‘‘ نقاش نے بھی اپنی تفسیر میں یہ روایت بیان کی ہے۔(شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا) جواب: اس کے جواب میں کئی نکات ہیں : پہلی وجہ : ہم کہتے ہیں کہ یہ دلیل پہلی دلیل سے بھی زیادہ جھوٹی ہے۔ہم آگے چل کر اس کی تفصیل بیان کریں گے ۔ ان شاء اللہ وتعالیٰ۔ رافضی کا یہ قول کہ یہ آیت بالاتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ یہ بہت بڑا اورصریح کذب ہے جوکہ اس آیت کی تفسیر میں کہاگیاہے۔ بلکہ یہ بات کسی بھی ایسے عالم نے نہیں کہی جو تفسیر کو اچھی طرح جانتاہے ۔ باقی رہیں ابو نعیم، ثعلبی اور نقاش اورواحدی کی تصانیف تو محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ ان کتب میں لا تعداد جھوٹی روایات موجود ہیں ۔اورثعلبی کی اس روایت کے بارے میں بھی محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ موضوع اور جھوٹی روایت ہے۔ہم آگے چل کر دلائل کے ساتھ واضح کریں گے کہ یہ روایت جھوٹی ہے۔ اور ثعلبی کا شمار محدثین میں نہیں ہوتا۔ لیکن ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر ایک قاعدہ کی یاددلائی جائے۔ منقولات میں بہت ساری جھوٹی روایات بھی ہیں اور بہت ساری سچی روایات بھی ہیں ۔ احادیث و روایات میں [صحیح اور موضوع میں فرق ]کے بارے میں ان علماء پر اعتماد کیا جائے گا جو حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین ہیں ۔ جس طرح نحوی مسائل میں علمائے نحو کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور قراء ت، لغت کے مسائل میں اہل لغت کی طرف اور طب کے مسائل میں ان علماء کی طرف رخ کیا جاتا ہے جو ان علوم میں ماہرانہ بصیرت رکھتے ہیں اس لیے کہ ’’لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ۔‘‘’’ہر فن کے لیے اس کے اہل لوگ ہوتے ہیں ۔‘‘ [محدثین کرام اور ان کی خدمات جلیلہ]: محدثین کرام بہت زیادہ قدر و منزلت رکھتے ہیں ۔ سب لوگوں کی نسبت حق و صداقت کے زیادہ طلبگار تھے ۔ ان کی منزلت باقی علماء سے بہت اونچی ہے؛اور ان میں دین داری زیادہ پائی جاتی ہے۔یہ لوگ سچائی اور امانت داری میں باقی سب لوگوں پر فائق ہیں ۔جرح وتعدیل کے بیان کرنے میں ان کا علم اورتجربہ بہت زیادہ ہے۔ [[جیسا کہ علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے حضرات کلیۃً اس سے آگاہ ہیں ۔ چنانچہ جس روایت کو وہ بالاتفاق ضعیف یا لغو قرار دیں وہ ساقط عن الاحتجاج ہوگئی اور جس کی صحت پر متفق ہوں وہ صحیح ہوگی اور جس میں وہ مختلف الخیال