کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 26
ایسے ہی اسلام کے شروع کے ایام میں اقامت دین کے لیے جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا ؛ اس کی کوئی مثال باقی نہیں رہی ۔جب کہ سائل کو ضرورت کے وقت کچھ دے دینا ایسی نیکی ہے جو قیامت تک کے لیے باقی ہے ۔ جب اتنے عظیم الشان اور نفع بخش اور اہم ترین صدقات کے لیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی دعا نہیں فرمائی تو پھر ایک سائل کو انگوٹھی دینے کی وجہ سے ایسی دعا کرسکتے ہیں ؛ حالانکہ یہ احتمال بھی ہے کہ وہ سائل اپنے سوال میں جھوٹا ہو؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایت اور اس جیسی دوسری روایات ایک جاہل انسان کا من گھڑت جھوٹ ہے جس میں وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی برابری کرنا چاہتا ہے ۔ [ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں ] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی oالَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیo اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی oوَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ [اللیل ۱۷۔۲۱] ’’ اور عنقریب اس سے وہ بڑا متقی دور رکھا جائے گا۔جو اپنامال دیتا ہے کہ پاک ہو جائے حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر اپنے اس رب کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے (د یتا ہے)جو سب سے بلند ہے۔ اور یقیناً عنقریب وہ راضی ہو جائے گا ۔‘‘ [من گھڑت روایت کا پس پردہ محرک]: [رافضی مصنف چاہتا ہے کہ ] اس طرح کے فضائل جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ثابت کیے جائیں ۔ پس وہ ایسا نہیں کرسکا کہ شروع اسلام کے دنوں کے متعلق کوئی روایت گھڑ لیتا ؛ تو اس کی جگہ یہ روایت گھڑلی جسے صرف جاہل لوگوں میں پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔ [جوحقائق جاننے والے لوگ ہیں وہ اس جھوٹ کو فوراً پکڑلیتے ہیں ]۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مدینہ طیبہ ہجرت کرنے اور نصرت و مدد حاصل ہونے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ یہ دعا فرمائیں کہ اے اللہ ! میرے اہل خانہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو میرا وزیر بنا دے ؛ اور اس سے میری پشت کو مضبوط کردے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے اورپھر مؤمنین کے ذریعہ آپ کی مدد فرمائی ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الأنفال۶۲] ’’[اللہ آپ کو کافی ہے] اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے آپ کی تائید کی ہے ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰] ’’اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے(دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘