کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 25
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اللہ کی راہ میں ایک ہزار اونٹ صدقہ میں دیئے ۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ جو بھی کرے گا ‘ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘ [1] شروع اسلام میں انفاق سبیل اللہ اور دین کی اقامت کے لیے خرچ کرنا ایک سائل پر خرچ کرنے سے بہت زیادہ باعث عظمت [و اجر و ثواب] تھا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[ تخریج گزرچکی ہے] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی﴾ [الحدید۱۰] ’’ تم میں سے جنہوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ(دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہادکیا،ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے ۔‘‘
[1] اپنے دل میں کہا: یہ بڈھا کیوں رو رہا ہے ؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندہ کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ نے اس کو دنیا کی تروتازگی اور اپنے پاس کے انعامات کے درمیان اختیار دیاہے-؛ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اختیار دیا گیا تھا -اس اشارہ کو حضرت ابوبکر سمجھ گئے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے بڑے عالم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ !رونا نہیں ؛ اپنی رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل [دوست حقیقی] بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا لیکن اسلامی دوستی کافی ہے ۔دیکھومسجد میں سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دریچہ کے اور کوئی دریچہ کھلا ہوا باقی نہ رہے۔‘‘  [الترمذي ۵؍۲۸۹]؛یہ پوری حدیث اس طرح ہے: ’’حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس راویت میں ہے:....’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دیناروں کو اپنی گود میں ہی الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے :’’ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کو کوئی گناہ ضرر نہیں پہنچا سکے گا‘‘ تین مرتبہ یہی فرمایا۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔یہ حدیث حضرت عبدالرحمن بن خباب کی سند سے بھی مذکور ہے؛ جس میں ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ تبوک کے لیے تیاری کے متعلق ترغیب دیتے ہوئے دیکھا۔ چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! سو اونٹ، پالان اور کجاوے وغیرہ سمیت میرے ذمے ہیں ؛ جو اللہ کی راہ کے لیے وقف ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب دی تو عثمان رضی اللہ عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے میں دو سو اونٹ پالان اور کجاوے وغیرہ سمیت اپنے ذمے لیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسری مرتبہ کھڑے ہوئے اور تین سو اونٹ اپنے ذمے لیے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ:’’ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے یہ کہتے ہوئے نیچے تشریف لے آئے کہ آج کے بعد عثمان کچھ بھی کرے اس کا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے کسی عمل پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔‘‘ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ محقق نے ان دونوں اسناد کو ضعیف کہا ہے۔