کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 23
اس میں اللہ تعالیٰ نے مرتدین کا ذکر کیا ؛ او ریہ بھی بیان فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہر گز کوئی نقصان نہیں دے سکتے ۔اور اللہ تعالیٰ ان کی جگہ ایک دوسری قوم کو لے آئے گا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ o وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ [المائدۃ ۵۵۔۵۶]
’’بیشک(مسلمانوں !)تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃادا کرتے ہیں اور (خشوع و خضوع کیساتھ)رکوع کرنے والے ہیں ۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی ۔‘‘
یہ کلام ان لوگوں کے احوال کو متضمن ہے جومنافقین میں سے اسلام میں داخل ہوئے۔ اور مرتدین کے حال کو بھی متضمن ہے ۔ اور ان لوگوں کے حال کو بھی شامل ہے جو ظاہری و باطنی طور پر اسلام و ایمان پر ثابت قدم رہے۔
اس سیاق پر جو بھی انسان غور و فکر کر ے گا ؛ اسے علم الیقین حاصل ہوجائے گا یہ آیت ان تمام مؤمنین کے لیے عام ہے جو ان صفات سے موصوف ہیں ۔کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں ۔نہ ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہ ہی عثمان و علی رضی اللہ عنہما یا کسی دوسرے کے ساتھ۔ مگریہ حضرات سابقین اوّلین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان میں بالاولیٰ داخل ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اورمخالفین ....؟:
چودھویں وجہ :....جو شخص بھی اس روایت کے مذکورہ الفاظ میں غوروفکر کرے گا اس پر شیعہ مصنف کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دروغ گوئی واضح ہوجائے گی کہ’’ علی رضی اللہ عنہ تمام نیکوں کے قائدنہیں ؛بلکہ تمام نیکوں کے قائد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ایسے ہی آپ تمام کفار کے قاتل بھی نہیں ہیں ،بلکہ آپ نے کچھ کفار کو قتل کیا ہے ؛ جیسا کہ آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی کچھ کفار کو قتل کیا ہے۔آپ بھی کفار کو قتل کرنے والے مجاہدین میں سے ایک تھے۔اور بعض کفار آپ نے ضرور قتل کیے ہیں ۔
ایسے ہی شیعہ کا قول کہ :’’ جو ان کی مدد کرے گا اس کی مدد کی جائے گی۔اور جو ان کو بے یارومددگار چھوڑے گاتو اسے بے یارومددگار چھوڑ دیاجائے گا۔‘‘
یہ خلاف واقع ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حق بات کے علاوہ کچھ بھی نہیں فرماتے؛ خصوصاً شیعہ کے قول کے مطابق ۔ اس لیے کہ شیعہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ پوری امت نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بے یار و مددگار چھوڑے رکھا ۔ [اور اگر شیعہ کی ذکر کردہ تفسیر صحیح ہوتی تو جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاساتھ چھوڑا تھا اور ان کی مدد کا حق ادا نہیں کیا تھا وہ ذلیل و خوار ہو جاتے حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ وہ مظفر و منصور ہوئے اور انھوں نے بلاد فارس و روم