کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 21
ہے۔ اس لیے کہ احوال کے اختلاف کی وجہ سے ان کی قیمتیں بھی بدلتی رہتی ہیں ۔
گیارھویں بات:....حقیقت یہ ہے کہ شیعہ مصنف کی ذکر کردہ آیت مندرجہ ذیل آیات کی مانند ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
۱....﴿وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ (البقرۃ:۴۳)
’’اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
یہاں پر رکوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
۲....﴿اُقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾(آل عمران:۴۳)
’’ اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ : یہ ذکر ان الفاظ میں اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جماعت کے ساتھ نمازپڑھتے تھے۔ اس لیے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والا جب رکوع کو پالے تو اسے رکعت مل جاتی ہے؛ بخلاف اس کے جو صرف حالت سجدہ میں نمازکو پاتا ہے ؛ اور رکوع اس سے چھوٹ جاتا ہے۔ اس سے رکعت بھی رہ جاتی ہے۔قیام میں ادراک شرط نہیں ہے۔
خلاصہ کلام! یہاں پر واؤ یا تو حالیہ ہے ؛ یا پھر واؤ عطف کا ہے۔ اکثر علماء کرام اسے عطف کا مانتے ہیں ۔ اور ایسے مواقع پرخطاب میں معروف یہی ہے۔رافضی مصنف کا قول اس وقت صحیح ہوتا جب یہ واؤ حالیہ ہوتا۔ اگر اس کے تعین پر دلیل نہ ہو تو حجت باطل ہوجاتی ہے۔ تو اس وقت کیا عالم ہوگا جب دلا ئل اس کے خلاف ہوں ۔
بارھویں وجہ :....سلف وخلف تمام مفسرین کے ہاں یہ بات عام طور سے معروف ہے کہ زیر نظر آیت موالات کفار سے روکنے اور اہل اسلام کے ساتھ دوستانہ مراسم استوار کرنے کے سلسلہ میں نازل ہوئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاق کلام بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔نیزاس میں اہل ایمان کیساتھ دوستی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جبکہ بعض منافقین جیسے عبد اللہ بن ابی ابن سلول یہود سے دوستی رکھتا تھا اور کہتا تھا : میں گردش ایام سے ڈرتا ہوں ۔‘‘
اہل ایمان میں سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا : یارسول اللہ ! میں اللہ اور اس کے رسول سے دوستی کرتا ہوں ؛ میں ان کفار کے ساتھ اپنے اتحاد اور دوستی سے اللہ اور اس کے رسول کی جناب میں برأت کا اظہار کرتا ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ بنو قینقاع والے دن عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی چالوں کی وجہ سے ان لوگوں پر وہ دن آگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔جس میں عمومی طور پر اہل ایمان کی محبت کو واجب کیا گیا تھا۔اور کفار کے ساتھ محبت اور دوستی سے منع کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے صحابہ اور تابعین رحمہم اللہ کا کلام گزر چکا ہے کہ یہ آیت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں ۔
[متنازعہ آیت کی صحیح تفسیر]:
تیرھویں وجہ :....غورکرنے والے کے لیے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ ا س آیت کا سیاق ہمارے اس موقف پر