کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 20
جا سکتا ہو۔علماء کرام کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : ایسا کرنے سے شرعی ایجاب نہ ہونے کی بنا پر ملکیت حاصل نہیں ہوگی۔
ظاہر ہے کہ نماز میں یہ کام کرنا فعل محمود نہیں ہے، اگر یہ اچھا[مستحب] کام ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کرتے اور اس کی ترغیب دیتے۔ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ بار بار یہ فعل سرانجام دیتے۔اصل میں یہ فعل نماز کے منافی ہے پھر یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ ولی وہی شخص ہوگا جو حالت رکوع میں صدقہ کرے۔
جب نماز میں کوئی ایسی بات مشروع نہیں ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں صدقہ کرنا اعمال صالحہ میں سے نہیں ہے اور سائل کو دینے کا موقع ختم نہیں ہوسکتا ؛ جب انسان نماز سے فارغ ہوجائے تب بھی وہ صدقہ کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں ایک طرح کا انہماک ہوتا ہے۔[اور اس میں حرکت یا فعل اس انہماک کے منافی ہے ]۔
آٹھویں بات:....اگر یہ بات مان لی جائے کہ نماز میں صدقہ دینا مشروع ہے ۔ تو پھر بھی رکوع کو اس کام کے لیے خاص نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ قیام یاقعود کی حالت میں ایسا کرنا زیادہ آسان تھا۔تو پھر کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمہارا ولی وہی ہوسکتا ہے جو صرف رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرے۔ تو کیا اگر کوئی حالت قیام یا قعود میں صدقہ کرے تووہ موالات اور دوستی کا مستحق نہیں ہوگا؟
٭ اگر [شیعہ]اس کے جواب میں یہ کہیں : اس سے مراد خصوصی طور پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کرنا ہے ۔
٭ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف جن کی وجہ سے آپ مشہور ہیں ‘ وہ بہت زیادہ اور صاف ظاہر ہیں ۔ پھر معروف باتوں کو چھوڑ کر ایسی باتیں کیوں بیان کی جاتی ہیں جنہیں کوئی جانتا ہی نہ ہو؟
جمہور مسلمین نے یہ خبر نہیں سنی۔اور نہ ہی مسلمانوں کی کسی معتمد کتاب میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی ہے ۔نہ ہی صحاح ستہ میں ؛ نہ ہی سنن میں ؛ نہ ہی جوامع اور معجمات میں اور نہ ہی امہات الکتب میں سے کسی ایک کتاب میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی ہے ۔ تو اب دوباتوں میں سے ایک بات لازم آتی ہے :
۱۔ اگر اس سے مقصود وصف کی مدح کرنا ہے تویہ محال اور باطل ہے۔
۲ ۔ اور اگر اس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کرنا تو بھی باطل ہے ۔
نویں بات:....اس سے کہا جائے گا کہ:﴿وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ﴾ تمہارے قول کے مطابق اس آیت کا تقاضا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والا رکوع کی حالت میں ہو۔ عہد رسالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تنگ دست تھے اورزکوٰۃ ان پر فرض نہ تھی۔ چاندی کی زکوٰۃ اس شخص پر فرض ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ صاحب نصاب نہ تھے۔
دسویں بات:....مزید براں اکثر علماء کے نزدیک زکوٰۃ میں انگوٹھی کا دینا کافی نہیں ہے۔اس کی صرف یہ صورت ہوسکتی ہے جب زیور پر بھی زکوٰۃ کو فرض مان لیا جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیور کی اسی جنس سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔جن لوگوں نے اس کے بجائے قیمت ادا کرنے کو جائز کہا ہے تو ایسے چیزوں میں کوئی متعین قیمت مقرر کرنا مشکل ہوتا