کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 194
ہمارے بعض ساتھیوں نے بیان کیا؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے مصر کے ایک آدمی نے بیان کیا ؛ اسے طسم کہا جاتا ہے ‘ وہ کہتا ہے: ہم سے ابو حذیفہ نے بیان کیا ؛ وہ کہتے ہیں :ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ:
﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ﴾ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ مراد ہیں ۔﴿بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾لؤلؤ اور مرجان سے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔
اس سند میں ایک سے بڑھ کر ایک اندھیر ہے ۔ایسی اسناد سے بھی کوئی دلیل ثابت ہوسکتی ہے؟ [شیعہ مصنف کا یہ بیان از سر تا پا دروغ ہے اور حضرت ابن عباس نے یہ بات یقیناً نہیں کہی۔]
جس چیز سے اس دعوی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے ‘ اس میں کئی امور ہیں :
پہلی وجہ :....سورت الرحمن مفسرین کے اجماع کے مطابق مکی سورت ہے ؛جبکہ حضرت حسن اور حسین مدینہ میں پیداہوئے ۔
دوسری وجہ :....ان کے [والدین حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما ]کے نام بحرین رکھنا ؛ اور بچوں کے نام لؤلؤ اور مرجان رکھنا اور نکاح کو مرج کہنا ؛لغت عرب ان معانی کی متحمل نہیں ہو سکتی جو بیان کیے گئے ہیں ۔نہ ہی حقیقتاً اور نہ ہی مجازاً۔بلکہ جیسے اس شیعہ مصنف نے اللہ تعالیٰ پر اور قرآن پر جھوٹ بولا ہے ایسے ہی اس نے عرب لغت پر بھی دروغ گوئی سے کام لیاہے ۔
تیسری وجہ :....ان میں کوئی ایسی چیز زائد نہیں ہے جو سارے بنی آدم میں نہ ہو۔اس لیے کہ ہر وہ انسان جو کسی عورت سے شادی کرتا ہے اور پھر اس سے دو بچے پیدا ہوجائیں تو وہ بھی اسی جنس سے شمار ہوں گے۔اس طرح کا ذکر کرنے میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے اللہ تعالیٰ کی قدرت و نشانیوں میں عظمت والا سمجھا جائے ۔ جو چیز باقی سارے بنی آدم میں بھی پائی جاتی ہے ؛ اس کو یہاں پر خاص کرنے کے لیے کوئی سبب نہیں پایا جارہا ۔ اگر میاں بیوی اور دو بچوں کی وجہ ہی فضیلت کا سبب ہے ‘ تو پھر حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب و حضرت اسحق علیہم السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت بہتر اور افضل ہیں ۔
صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : سب سے زیادہ معزز اور بزرگ کون ہے؟
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھتا ہو۔ لوگوں نے کہا :’’ہم یہ بات نہیں پوچھتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سب سے زیادہ معزز یوسف نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن خلیل اللہ ہیں ۔‘‘
[صحیح بخاری:ح:۵۸۸]
وہ آل ابراہیم علیہ السلام جن کے متعلق ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ سے سوال کریں کہ ان پر ایسے درود نازل فرمائے جیسے ان پر نازل فرمایا تھا۔ ہم اور ہر ایک مسلمان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آل ابراہیم علیہ السلام آل علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں ۔ پس اس بنیاد پر یہاں پر ایک مشہور
[1] ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرما چکا ہے کہ دو معبود نہ بناؤ۔‘‘ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ دو امام نہ بناؤ۔ ‘‘
﴿ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ‘‘ إِمَامٌ وَّاحِدٌ ﴾’’معبود تو صرف وہی اکیلا ہے۔‘‘ یعنی امام صرف ایک ہے ۔ [تفسیر العیاشی، ج : ۲؍۲۵۸، البرھان، ج : ۲؍۳۶۸۔ الصافی، ج : ۱؍۹۲۳۔ نور الثقلین، ج : ۳؍۵۳۔۶۰۔]
یہ لوگ کفارو منافقین کے بارے میں وارد آیات کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ مرادلیتے ہیں ۔ انھوں نے روایت بیان کی ہے کہ ابو عبداللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :
﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ ﴾ [السجدۃ : ۲۹]
’’اور کافر لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں جنوں اور انسانوں کے وہ دونوں فریق دکھا جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تاکہ ہم انھیں اپنے قدموں تلے ڈال کر انھیں نہایت اور سب سے نیچے کر دیں ۔ ‘‘
کے متعلق فرمایا : ’’اس سے مراد وہ دونوں ہیں ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اور فلاں تو پکا شیطان تھا۔‘‘
ان کا علامہ مجلسی کہتا ہے: ’’دونوں ‘‘ سے مراد ابو بکر اور عمر ہیں اور ’’فلاں ‘‘ سے مراد عمر ہے۔ قرآن کی جس آیت میں بھی ’’جنّ ‘‘کا ذکر ہوتو اس سے عمرمراد ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ یا تو وہ خود شیطان تھا‘یا تو اس میں شیطان کے شریک ہونے کی وجہ سے؛ کیونکہ وہ زانی کا بچہ ہے۔ یا وہ مکر و فریب اور دھوکے بازی میں شیطان کی طرح تھا ۔ اور دوسرا احتمال یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ابو بکر مراد ہو۔‘‘ [فروع الکافی الذی بھامش مرآۃ العقول: ۴؍ ۴۱۶]
اسی طرح شیعی علماء ابو کی سند سے ابو عبد اﷲ علیہ السلام سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد:
﴿ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشِیْطَانِ ﴾ [البقرۃ]
’’ اور تم شیطانی راہوں پر مت چلو ۔‘‘کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس سے مراد دوسرے( عمر )اور پہلے( ابو بکر )کی ولایت ہے ۔ [تفسیر العیاشی: ۱؍ ۱۲۱۔ حدیث نمبر: ۳۰۰( سورۃ البقرۃ)۔]
مزید روایت کرتے ہیں کہ ابو عبد اﷲ علیہ السلام نے فرمایا( اور وہ اس سے بری ہیں )کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد:
﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ ﴾ (ابو بکر و عمر ) [ النساء : ۵۱ ]
’’وہ بتوں کا اور باطل معبودوں کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔‘‘ اس کی تفسیر یہ ہے کہ بت اور شیطان سے مراد فلاں فلاں ہیں ۔‘‘[بصائر الدرجات: ۵۴، ح: ۳( باب معرفۃأئمہ الھدی من ائمۃ الضلال وأنھم الجبت والطاغوت والفواحش )، تفسیر العیاشی: ۱؍ ۲۷۳، حدیث نمبر: ۱۵۳۔ بشارۃالمصطفی لشیعۃ المرتضی: الجزء الخامس، حدیث: ۳۷۔ تفسیر الصافی: ۱؍ ۴۵۹۔ الوافی ۱؍ ۳۱۴۔ تفسیر البرہان: ۱؍ ۲۰۸۔ ۳۷۷۔]
فلاں فلاں کی وضاحت کرتے ہوئے مجلسی کہتا ہے:’’ اس سے مراد ابو بکر اور عمر ہیں ۔ ‘‘[بحار الأنوار: ۲۳ ؍ ۳۰۶، حدیث نمبر:۲، باب انہم أنوار اﷲ )]