کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 193
یہ وہ تفسیری اقوال ہیں جو ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیے ہیں ۔جنہیں اس نے مجہول راویوں والی اسناد سے نقل کیا ہے ؛ جن کا کوئی تعارف ہی نہیں ۔[نیز اس کی اسناد میں جھوٹے راویوں کی بھر مار ہے ]۔ مثال کے طور پر راوی کہتا ہے : مجھے سفیان ثوری نے خبر دی - حالانکہ سفیان ثوری کے بارے میں ایسا کہنا جھوٹ ہے- ؛ وہ کہتے ہیں : مجھے ثعلبی نے خبر دی ؛ وہ کہتا ہے : مجھے حسن بن محمد دینوری نے خبردی؛ وہ کہتا ہے: ہم سے موسیٰ بن محمد بن علی بن عبداللہ نے بیان کیا ؛ وہ کہتا ہے: میرے والد نے ابو محمد بن حسن بن علویہ القطان پر اس کی کتاب پڑھ کر سنائی اور میں سن رہا تھا؛ وہ کہتا ہے : ہم سے
[1]
[1] ’’ اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہے ائمہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
﴿ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ﴾۔
’’ لوگوں کے سمجھانے کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے۔‘‘[أصول لکافی: ۱؍ ۱۴۰( کتاب الحجۃ، ح: ۵أن الأئمۃ نور اللّٰہ عزوجل]
۳: شیعی علماء شرک سے روکنے والی آیات کی تفسیر کرتے ہیں کہ وہ آیات علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ولایت میں شرک کرنے سے روکنے والی ہیں یا آپ کی ولایت کا کفر کرنے سے روکنے والی ہیں ۔قمی، باقر رحمہ اللہ سے روایت کرتا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا: ﴿ وَلَقدْ اُوْحِیَ اِلیْکَ وَاِلَی الّٰذِیْنَ مَنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ﴾تفسیرہا: لئن أمرت بولایۃ أحد مع ولایۃ علی من بعدک ﴿ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴾ [ الزمر : ۶۵]
’’ یقیناً آپ کی طرف وحی کی گئی اور آپ سے پہلے( انبیاء )کی طرف بھی کہ اگر آپ نے شرک کیا‘‘[ اس کی تفسیر یہ ہے کہ اگر آپ حضرت علی کی ولایت کے ساتھ کسی اور کی ولایت کا حکم دیا] ‘‘’’ تو آپ کے عمل ضائع ہوجائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘[تفسیر القمی:۲؍ ۲۵۱ (سورۃالزمر)]
شیعہ حجت اﷲ کلینی ابو عبد اﷲ علیہ السلام سے اس آیت کی یہ تفسیر بیان کرتا ہے کہ اگر آپ نے ولایت علی میں کسی دوسرے کو شریک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔[اصول الکافی: ۱؍۳۲۳۔]
شیعہ عالم عیاشی ابو جعفر علیہ السلام سے روایت کرتاہے کہ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تفسیر اس طرح کی ہے:
﴿’ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ﴾یعنی: أنہ لا یغفر لمن یکفر بولایۃ علی﴿ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ﴾[یعنی لمن والی علیاً] [ النساء : ۴۸ ]
’’یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا ‘‘[یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں بخشے گا جو علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا انکار کرتا ہے]۔اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘ [یعنی محبان علی کو معاف کر دے گا][تفسیر العیاشی: ۱؍ ۲۷۲، حدیث نمبر: ۱۴۹۔ تفسیر البرہان، تفسیر نورالثقلین ۱؍ ۴۸۸۔ تفسیر الصافی۔ ۱؍ ۴۵۸( سورۃ النساء )۔]
۴: شیعی مفسرین جن آیات میں ایک اﷲ کی عبادت کا حکم اور طاغوت سے اجتناب کا امر ہے اس کی تفسیر ائمہ ولایت اور ائمہ کے دشمنوں سے براء ت کرنا کرتے ہیں ۔وہ روایت کرتے ہیں کہ ابو جعفر رحمہ اﷲ نے فرمایا (اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسا فرمائے ): ’’ اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کو ہماری ولایت کی خبر دینے اور ہمارے دشمنوں سے براء ت کا اعلان کرنے کے لیے مبعوث کیا۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمائی ہے اور وہ یہ ہے : ﴿ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ﴾[بتکذیبہم آل محمد] [ النحل : ۳۶]
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو، پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی۔‘‘[ یعنی آل محمد کی تکذیب کرنے کی وجہ سے] ان پر ضلالت ثابت ہوگئی۔
[تفسیر العیاشی: ۲؍ ۲۸۰۔ تفسیر الصافی: ۳؍ ۱۳۴۔ تفسیر البرہان: ۲؍ ۳۶۸۔ تفسیر نورالثقلین: ۳؍۵۳، حدیث نمبر: ۷۹)۔]
اور ابو عبد اﷲ علیہ السلام نے فرمایا( اور وہ اس قول سے بری ہیں ): وہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان:
﴿وَ قَالَ اللّٰہُ لَا تَتََّخِذُوْآ اِلٰہَیْنِ اثْنَیْنِ﴾ ‘‘ یَعْنِیْ بِذٰلِکَ : لَا تَتَّخِذُوْا إِمَامَیْنِ اثْنَیْنِ۔(