کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 18
اس لیے کہ علامہ بغوی رحمہ اللہ حدیث کے بڑے عالم تھے؛ ثعلبی اور واحدی سے بڑھ کر[حدیث کا] علم رکھتے تھے۔آپ کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر سے مختصرکی گئی ہے۔آپ نے اپنی تفسیر میں ان موضوع احادیث میں سے کوئی بھی روایت نقل نہیں کی جو کہ ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہیں ۔اور نہ ہی اہل بدعت کی تفسیر نقل کی؛جیسے کہ ثعلبی نے نقل کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ثعلبی میں خیر اوردین داری ہے ؛لیکن صحیح اور ضعیف احادیث کے بارے میں آپ کی معلومات بہت کمزور ہیں ۔اور بہت سارے اقوال میں سنت اور بدعت میں تمیز نہیں کرپاتا۔ جبکہ بڑے اور مشہور اہل علم مفسرین جیسے : محمد بن جریر الطبری ؛ بقی بن مخلد ؛ ابن ابی حاتم ؛ ابن المنذر ؛ عبد الرحمن بن ابراہیم دحیم اور ان کے امثال نے اپنی تفاسیر میں ان موضوع روایات میں سے کوئی بھی روایت نقل نہیں کی۔ جو ان سے بڑے علماء ہیں مثلاً تفسیر احمد بن حنبل؛ اسحاق بن راہویہ ؛ اور دوسرے علماء ؛ ان کی تو بات ہی چھوڑیے۔ بلکہ ایسی روایات تو عبد بن حمید اور عبدالرزاق کے ہاں بھی نہیں ملتیں ۔ حالانکہ عبدالرزاق شیعیت کی طرف میلان رکھتا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت ساری روایات نقل کیا کرتا تھا اگرچہ وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن اس کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند ہے کہ وہ اس جیسا کھلا ہوا جھوٹ روایت کرے۔ اہل علم محدثین کا اجماع ہے کہ کسی فرد واحد کے مجرد روایت کرنے سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی جنس سے ثعلبی ؛ واحدی اور نقاش اوران جیسے دوسرے لوگ بھی تعلق رکھتے ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ اپنی تفاسیر میں اکثر وہ احادیث روایت کرتے ہیں جو کہ ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع ہوتی ہیں ۔ اگر ہمیں چند دوسری وجوہات کی بنا پر بھی ان لوگوں کا جھوٹا ہونا معلوم نہ ہوتا تو پھر بھی ان کی روایات پراس لیے اعتماد کرنا جائز نہ ہوتا کہ انہیں ثعلبی اور اس کے امثال نے روایت کیا ہے۔توپھر جب ہمیں اس جھوٹ کا پتہ بھی ہے تو ان روایات پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟ ہم ان شاء اللہ وہ دلائل ذکر کریں گے جن سے ان کا جھوٹ عقلاً و نقلاً کھل کر سامنے آجائے گا۔ یہاں پر صرف اس مصنف کی افترا پردازی اور کثرت جہالت کا بیان کرنا ہمارا مقصد ہے۔ کیونکہ اس کا دعوی ہے کہ : ’’اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ صد افسوس کہ اس بیچارے کو یہ بھی علم ہوتا کہ اہل علم میں سے جو لوگ ایسے امور میں اجماع کے حقائق کا علم رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کس نے یہ اجماع نقل کیا ہے ؟ اس لیے کہ ایسے امور میں غیر اہل علم کا نقل کردہ اجماع ہر گز قبول نہیں ہوتا۔اور پھر اس میں اجماع بھی نہیں ‘ بلکہ اختلاف ہے۔ اس لیے کہ متکلم ؛ مفسر اور مؤرخ جب بلا سند کوئی روایت نقل کرکے کسی معاملے کا دعوی کریں تو ان کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔تو پھر جب وہ اجماع کا دعوی کرے تو کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے ؟ تیسری بات:....اس سے پوچھا جائے کہ :شیعہ مصنف نے اپنی تائید میں ثعلبی کا حوالہ دیا ہے، وہ مفسرین جن کی کتابوں سے یہ تفسیر نقل کی گئی ہے ؛ وہ ثعلبی سے زیادہ جانتے ہیں ۔انہوں نے اس کے برعکس نقل کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ثعلبی نے حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ یہ آیت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔‘‘