کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 16
براہین کا نام دیتا ہے اس کے لوازم سے ایمان و قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قدح وارد ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رافضیت کی اصل بنیاد کچھ زندیق لوگوں کے ہاتھوں پر اٹھائی گئی ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ؛ قرآن پر اور دین اسلام پر اعتراضات اور قدح کی جائے۔ اس غرض کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انہوں نے ایسی روایات گھڑلیں جن کو سچا ماننے سے دین اسلام پر طعن لازم آتا ہے ۔پھر انہوں نے اپنی وضع کردہ روایات کو لوگوں میں عام اور مشہور کردیا۔ لوگوں میں جاہل بھی تھے اور ہویٰ پرست بھی۔انہوں نے اپنی ہویٰ پرستی کی وجہ سے ان حکایات و روایات کو قبول کرلیا ؛ مگر یہ نہ دیکھا کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ ان میں سے بعض اہل نظر لوگ بھی تھے جنہوں نے ان میں غور وفکر کیا تو پتہ چلا کہ یہ روایات دین اسلام کی حقانیت پر قدح کرتی ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ان روایات کے موجب عقیدہ اپنا لیا اور دین اسلام پر قدح کرنے لگے۔ اس کی وجہ شروع سے ہی ان کے دین و اعتقاد کی خرابی تھی۔ یا پھر اس کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ روایات صحیح ہیں ؛ اور جوکچھ وہ دین اسلام کا عقیدہ رکھتا تھا اس پر قدح وارد ہوتی تھی۔ [لہٰذا اس نے ان روایات کو قبول کرلیا]۔
[اسماعیلیہ اور نصیریہ کی گمراہی کی وجہ]:
یہی وجہ ہے کہ اکثر زنادقہ اسلام میں شیعیت کے دروازہ سے داخل ہوئے، اور ان اکاذیب کے بل بوتے پر اسلام کو مطعون کرنا شروع کیا۔وہ جہلاء ان مکذوبات کی بنا پر شبہات کا شکار ہو گئے جنہیں یہ علم نہ تھا کہ یہ روایات جھوٹی ہیں ؛ بس انہیں صرف اتنا پتہ تھا کہ دین اسلام ایک سچا مذہب ہے۔
فرقہ ہائے اسماعیلیہ و نصیریہ بھی اسی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ جھوٹی اور من گھڑت روایات قرآن کی تفسیر اور حدیث کی شرح میں پیش کرتے ہوئے شیعہ کی روایت کردہ اکاذیب پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ چنانچہ انھوں نے سب سے پہلے آل محمد پر اظہار رحم و کرم کا آغاز کیا، پھر صحابہ پر نقد وجرح اور گالی گلوچ کا بیڑا اٹھایا۔ بعد ازاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدف ملامت بنایا، کیوں کہ آپ یہ سب باتیں سن کر خاموش رہے تھے، پھر رسول علیہ السلام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں اﷲکی تردید و تکذیب پر اتر آئے۔ جیسا کہ صاحب البلاغ الاکبر نے اس ترتیب پر روشنی ڈالی ہے۔ جیسا کہ عبیدی ائمہ کی بنیاد رافضیوں کے من گھڑت واقعات پر ہے ؛ تاکہ اس طرح سے گمراہ شیعہ لوگوں کو اپنا شکار کرسکیں ۔ پھر اس کے بعد صحابہ کرام میں طعن کرنا شروع کرتے ہیں ؛ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کرتے ہیں ‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اور پھر الٰہیات میں طعنہ زنی کرتے ہیں جیسا کہ ’’البلاغ الاکبر اور الناموس الاعظم ‘‘ کے مصنف نے ان کے لیے درجات مقرر کیے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ رافضیت کفرو الحاد کا رئیسی دروازہ اور دھلیز شمار ہوتی ہے۔
دوسری بات:....ہم کہتے ہیں : اس آیت کے جواب میں کئی امور ہیں :
اوّل :....ہم اس روایت کی صحت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔سب سے پہلے حدیث کو اس انداز میں پیش کیا جائے جس