کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 14
’’ اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔اور میرے لیے میرا کام آسان کر دے۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ وہ میری بات سمجھ لیں ۔اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک بوجھ بٹانے والا بنا دے۔ہارون کو، جو میرا بھائی ہے۔اس کے ساتھ میری پشت مضبوط کر دے۔اور اسے میرے کام میں شریک کر دے ۔‘‘ ان کے جواب میں اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا بِاٰیٰتِنَآ﴾ [القصص ۳۵] ’’ فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ۔‘‘ آپ نے دعا کی : اے اللہ! میں محمد ہوں تیرا نبی اور تیرا برگزیدہ؛ اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔اور میرے لیے میرا کام آسان کر دے۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ وہ میری بات سمجھ لیں ۔اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک بوجھ اٹھانے والا بنا دے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو؛اوراس کے ساتھ میری پشت مضبوط کر دے۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آپ اپنی گفتگو ختم نہ کر پائے تھے کہ جبرائیل مذکورہ بالا آیت لے کر حاضر ہوئے ۔ [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]: ﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ ﴾ [المائدۃ ۵۵] ’’بیشک تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع (خشوع و خضوع)کرنے والے ہیں ۔‘‘ فقیہ ابن المغازی الواسطی الشافعی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں جو ولی کا لفظ مذکور ہے اس سے متصرف مراد ہے۔ گویا اﷲتعالیٰ نے جس طرح اپنے اور رسول علیہ السلام کے لیے ولایت فی الامہ کا اثبات کیا ہے، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی کیا۔‘‘ ( شیعہ کا بیان ختم ہوا) [جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے: پہلی بات:....اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ مصنف نے جوکچھ ذکر کیا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہے کہ عقلاً قبول کیاجائے۔ بلکہ اس کا ذکر کردہ واقعہ صاف جھوٹ پر مبنی ہے۔اور وہی فلاسفہ و حمقاء کے کلام کی جنس سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اگر اسے عقلی طور پر مان لیا جائے تو پھر اسے برہان کہنا انتہائی منکر اور بری بات ہے۔ اس لیے کہ قرآن میں اور دوسرے مقامات پر برہان کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس سے علم اور یقین کا فائدہ حاصل ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ