کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 99
لوگ اس حدیث کو ایسے سمجھ لیتے ہیں جیسے دوسرے نہیں سمجھ سکتے ۔ پس جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق حکم جاری کرے تو اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔حقیقت میں یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے ‘اس انسان کی نہیں ۔جب لوگوں پر کوئی ایسا حکمران ہو ‘ جو صاحب شان وشوکت ہو‘اور احکام نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو‘ اوروہ [احکام شریعت کے مطابق] حکم یا آرڈر جاری کرے ؛ تو اس کے ساتھ مل جانا چاہیے ؛ اور پھر جائز نہیں ہوتا کہ اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو حاکم بنایا جائے۔ پھر یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی انسان اس جیسا اورنہ ہو۔بلکہ کوئی ایسا انسان ہوسکتا ہے جو دوسرے کی بہ نسبت آپ کے زیادہ قریب ہو۔ خلافت نبوت کا سب سے زیادہ حق دار وہ انسان ہے جو آپ کے اوامر و نواہی کوجاری کرنے کے زیادہ قریب تر ہو۔ اورلوگ حکام کی اطاعت غالب طورپر اس وقت تک نہیں کرتے جب تک کوئی قوت والا حکمران ان پر بات ماننے کو واجب نہ کردے۔جیسا کہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں بہت سارے لوگوں نے ظاہری طور پر آپ کی اطاعت اس وقت تک نہیں کی جب تک کہ آپ کو انصار و مدد گار میسر نہیں آگئے؛ جو آپ کی بات منوانے کے لیے جنگ و قتال تک کرتے تھے۔دین سارے کاسارا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی دین ہے۔پس جو کوئی رسول کی اطاعت کرتا ہے گویاکہ اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدبھی مسلمانوں کا دین اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔اور حاکم وقت کی ایسے امور میں اطاعت کرنا جن کاحکم شریعت میں موجود ہو‘حقیقت میں یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ [ایسے میں ]حاکم وقت کا حکم در اصل اللہ کا حکم ہوتا ہے ؛ جس کا اسے حکم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں میں یہ حکم جاری کرے۔حکمران کا حکم ماننا [جب وہ احکام شریعت کے مطابق ہوتو]حقیقت میں اللہ کا حکم ماننا ہے۔ائمہ اور امت کے وہ اعمال جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور جن کے کرنے پر وہ راضی ہوتا ہے ‘حقیقت میں وہ تما م اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے کام ہیں ۔اسی لیے دین کی اصل بنیاد ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘کی گواہی کا اقرار ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے ‘اور آپ کی امامت رسالت سے خارج چیز تھی۔ یا آپ کی امامت میں کچھ ایسی شرائط تھیں جو رسالت میں نہیں تھیں ؛ یاآپ کی امامت ایسی تھی جس میں رسالت سے ہٹ کر اطاعت واجب تھی۔ یہ تمام باتیں باطل [اور دروغ گوئی ]ہیں ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر قابل اطاعت بات آپ کی رسالت میں شامل ہے۔ہر وہ بات جس میں آپ کی اطاعت کی جاتی ہے ‘اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ