کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 98
شریعت میں استقرار و ٹھہراؤ آگیا ۔اب اس میں کسی چیز کے منسوخ [یاتبدیل ] ہونے کا امکان باقی نہیں رہا ۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد قرآن مجید جمع کیا گیا ۔ جب کوئی اعتراض کرنے والا یہ بات کہے کہ: ’’ بیشک آپ اپنی حیات مبارکہ میں خود امام تھے‘اور آپ کے بعد دوسرے لوگ امام بن گئے۔اگر ایسا کہنے سے مقصود یہ ہو کہ یہ امام بھی ایسے ہی واجب الاطاعت ہے جیسے رسول کی اطاعت کی جاتی ہے ؛ تو ایسا کہنا سراسر باطل ہے۔اگر اس سے مقصود یہ ہے کہ امام آپ کے بعد خلیفہ بنا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کونافذ کرے ؛ تو ایسا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ہوتا رہا ہے ۔ اس لیے کہ جب بھی آپ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو اپنے پیچھے کسی کونگران چھوڑ کر جاتے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اپنی زندگی کے برعکس موت کے بعد حکم دے کر کسی کو متعین نہیں کیا تھا۔ تو اس سے کہا جائے گا کہ :’’ امیر کے واجب الاطاعت ہونے کے لیے اس کا نام لے کر متعین کیا جانا ضروری نہیں ۔ بلکہ جس تک کہ اس کے اوامر و نواہی پہنچیں ان پر اطاعت لازمی ہوتی ہے۔ جیسا کہ جو انسان خود کلام سماعت کررہا ہو‘ اس پراطاعت واجب ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’ حاضرین کو چاہیے کہ وہ غائب لوگوں تک بات پہنچادیں ۔ بیشتر اوقات جس تک بات پہنچائی جاتی ہے ‘ وہ بات پہنچانے والے سے بڑھ کر یاد رکھنے والا ہوتا ہے ۔‘‘[1] اگر یہ کہا جائے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارک میں متعین معاملات میں فیصلے کیا کرتے تھے‘ جیسا کہ کسی شخص کو کچھ عطاء کرنا ‘کسی خاص شخص پر حد لگانا ؛ خاص لشکر کو روانہ کرنا۔ تو اس سے کہا جائے گا کہ : یہ بالکل درست ہے ۔اور اس طرح کے مسائل میں آپ کی اطاعت قیامت تک کے لیے واجب ہے؛ برخلاف ائمہ کے۔لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسے مسائل پر استدلال مخفی رہتا ہے۔ جیسا کہ آپ کی مجلس سے غائبین پر علم مخفی رہتاہے ۔ پس جو انسان آپ کی مجلس میں موجود ہو ‘وہ غائب کی بہ نسبت آپ کے قول کو زیادہ جانتا اور سمجھتا ہے۔ اگرچہ غائبین میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو براہ راست سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں ۔لوگوں میں ایسا فرق آپ کے امر و نہی کو سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اس پران کی اطاعت کے واجب ہونے میں کوئی فرق نہیں ۔ آپ کے بعد بھی ولی امر کی اطاعت ایسے ہی واجب ہے جیسے آپ کی حیات مبارک میں آپ کے متعین کردہ اولیاء الامر کی اطاعت واجب تھی۔آپ کی اطاعت تمام لوگوں کو یکساں طور پر شامل ہے۔ اگرچہ ان کے سننے ‘ سمجھنے اور فہم کے مراتب میں فرق ہے۔بعض لوگوں تک وہ احکام پہنچتے ہیں جو دوسروں تک نہیں پہنچے ہوتے اور کچھ لوگ آپ کی مجلس میں شرف سماعت سے باریاب ہوتے ہیں جو کہ کسی دوسرے انسان کو نہیں مل پاتااور کچھ
[1] رواہ البخاری۲؍۱۷۶۔