کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 96
تاکہ ہم اس پر بحث کرسکیں ۔
دوسری وجہ : یہ کہا جائے گا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امام ہونے کی وجہ سے آپ کی اطاعت لوگوں پر فرض نہ تھی ؛ بلکہ لوگوں کی طرف آپ کے رسول ہونے کی وجہ سے اطاعت فرض تھی۔یہ بات آپ کے لیے زندگی میں اور وفات کے بعد ہر حال میں ثابت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں آنے والے لوگوں پر بھی آپ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح آپ کے زمانے کے لوگوں پر فرض تھی۔ آپ کے اہل زمانہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو آپ کے پاس موجود ہوا کرتے تھے ‘ اور آپ کے امرو نہی کوسماعت کیا کرتے تھے ۔اورکچھ دوسرے لوگ تھے ‘جو آپ کی مجلس سے غائب ہوتے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کرنے والے لوگ ان تک شرعی احکام پہنچاتے۔تو ان پر بھی اطاعت کرنا واجب ہوتی۔ ایسے ہی بعد میں آنے والے لوگوں کا معاملہ ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے؛ اور ان تمام لوگوں کوشامل ہے چاہیے وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوں یا اس سے غائب ہوں ۔آپ کی زندگی میں اور اس کے بعد [جس تک بھی فرمان نبوت پہنچے ‘اس پر اس کا ماننا واجب ہو جاتاہے]۔ یہ خصوصیت امامت کو حاصل نہیں ۔یہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خاص متعین لوگوں کو کچھ احکام دیے ؛ اور کچھ متعین لوگوں کے لیے چند امور بیان کیے ؛ مگر اس کے باوجود یہ احکام صرف ان لوگوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہوں گے؛ بلکہ ان جیسے دوسرے لوگوں کے لیے بھی یہ احکام ہوں گے۔جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کو یہ حکم دینا کہ :
’’رکوع اور سجدہ میں مجھ پر سبقت نہ لے جاؤ ۔‘‘[1]
یہ حکم ہر مقتدی کے لیے ہے جو بھی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہوکہ رکوع اور سجدہ میں امام سے آگے نہ بڑھے۔
ایسے ہی [حج میں ]رمی سے پہلے سر منڈوانے والے کیلئے آپ نے فرمایا تھا : ’’اب رمی کرلو‘ اس میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘
جس انسان نے حلق[سر منڈوانے] سے پہلے قربانی کردی تھی ‘ اس سے فرمایا:
’’ اب سر منڈوالو ‘ کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ [2]
جن لوگوں کے ساتھ اس کے بعد بھی اس طرح کا معاملہ پیش آجائے ان کے لیے یہی حکم ہے ۔
ایسے ہی جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ماہواری شروع ہوگئی توآپ نے حکم دیا تھا :
’’ ایسے ہی کرتی جاؤ جیسے باقی حاجی کررہے ہیں ‘صرف بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ۔‘‘[3]
[1] مسلم ۱؍۳۲۰۔ ابن ماجۃ ۱؍۳۰۸۔
[2] البخاری ۲؍۱۷۳۔ مسلم ۲؍۹۴۷۔
[3] البخاري ۲؍۱۵۹۔