کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 95
ہم کہتے ہیں یہ عذر پیش کرنا کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے : پہلی وجہ :کہنے والے کایہ کہنا کہ : امامت احکام دین کے اہم ترین مطالب میں سے ہے ؛یا تو اس سے مراد بارہ امام ہوں گے ‘ یا پھر ہر زمانے میں متعین امام ہوگا۔ اس طرح سے کہ ہمارے اس زمانے میں امام غائب مہدی منتظر پر ایمان رکھنا ضروری ہوگا۔ جب کہ خلافت راشدہ کے زمانہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے پر ایمان رکھنا ضروری رہا ہوگا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اہم آپ کی امامت پر ایمان رکھناہوگا۔ یا پھر اس سے مطلق امامت پر ایمان ہوگا‘اس سے کوئی متعین شخص مراد نہیں ہوگا۔یا پھر اس سے کوئی چوتھا معنی مراد ہوگا۔ پہلا معنی: یہ بات اضطراری طور پر سب کومعلوم ہے کہ یہ مسئلہ نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان مشہور و معروف تھا اور نہ ہی تابعین کرام کے درمیان۔بلکہ شیعہ خود کہتے ہیں : ’’ ان[ائمہ ] میں سے ہر ایک اپنے سے پہلے امام کے متعین کرنے سے امام بنتا ہے۔ پس یہ بات باطل ہوگئی کہ یہ مسئلہ دین کے اہم ترین امور میں سے ہے۔ دوسرا معنی: اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو اس سے مراد یہ ہوگی کہ ہر زمانے میں اس زمانے کے امام پر ایمان رکھا جائے۔ تو اس لحاظ سے سن ۲۶۰ ہجری سے لیکر آج تک امام مہدی منتظر محمد بن حسن عسکری ہوگا۔ اور امامت پر ایمان رکھنا ’’ لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ کے اقرار؛ اللہ تعالیٰ ‘فرشتوں ‘ کتابوں اور رسولوں پر آخرت کے دن پر ایمان سے ؛اور نماز ‘ زکوٰۃ ‘روزہ ‘ حج اور دیگر ارکان اسلام پر ایمان اور دیگر تمام واجبات سے بڑھ کر اہم ہوگا۔ یہ بات سبھی کومعلوم ہے کہ مسلمانوں کے دین میں اس طرح کی باتیں کرنا بالکل فاسد ہیں ۔یہ امامیہ کا قول [مذہب ]بھی نہیں ۔اس لیے کہ ان کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی امامت کااہتمام مہدی منتظر کی امامت کے اہتمام سے بہت بڑھ کر ہے ۔ جیسا کہ اس کتاب کے مصنف نے اور اس جیسے دیگر شیعہ مشائخ نے نقل کیا ہے۔ امامیہ فرقہ کے پاس دین سے صرف یہ متاع باقی رہ گئی ہے کہ انہوں نے امام معدوم کو امام معصوم قرار دیا ہے؛ جو کہ نہ انہیں دین میں کوئی فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی دنیا میں ۔پس انہیں اس امام کی امامت پر ایمان رکھنے سے نہ ہی کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہوا اور نہ ہی کوئی دینی [یا اخروی]فائدہ ۔ تیسرا معنی: اگر یہ کہیں کہ : ’’ اس سے مراد یہ ہے کہ مطلق طور پرامامت دین کے اہم ترین مطالب میں سے ہے ۔تو یہ کہنا بھی باطل ہے ۔اس لیے کہ یہ بات سبھی لازمی طور پر جانتے ہیں کہ دین کے دوسرے امور اس سے بڑھ کر اہم ہیں ۔اوراگر اس سے مقصود کوئی چوتھا معنی ہے توشیعہ مصنف کوچاہیے کہ اس کی وضاحت کرے ؛