کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 93
کفارسے قتال کیا تھا۔ جیساکہ صحاح اور دوسری کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أمرت أن أقاتل الناس حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اللہ أني رسول اللہ ؛ویقیموا الصلاۃ ویؤتوا الزکاۃ فإذا فعلوا ذلک عصموا منی دمائہم وأموالہم إلا بحقھا۔))[1] ,,مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ اس بات کی گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ۔ جب وہ ایسا کرلیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کرلیں گے مگر اسلام کے حق کیساتھ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ َو احْصُرُوْہُمْ وَ اقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ﴾ [التوبہ ۵] ’’پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب خیبر کی طرف بھیجاتو آپ سے یہی ارشاد فرمایاتھا۔ کفار کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سیرت تھی ۔ جب بھی وہ اپنے کفر سے توبہ کرلیتے توان کے اموال و نفوس کوامن حاصل ہوجاتا۔کبھی بھی ان کے سامنے امامت کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ﴾ [التوبہ ۱۱] ’’پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمھارے بھائی ہیں ۔‘‘ مذکورہ بالا آیت میں صرف توبہ کرلینے کی وجہ سے انہیں دینی بھائی قرار دیا گیاہے ۔ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ کفار جب عہد نبوی میں مشرف بہ اسلام ہوا کرتے تھے تو ان پر اسلامی احکام جاری کر دیے جاتے تھے اور مسئلہ امامت کا ان کے سامنے ذکر تک نہ کیا جاتا۔اور نہ ہی کسی اہل علم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات نقل کی ہے ۔نہ ہی کوئی خاص منقول ہے اورنہ ہی عام منقول ۔بلکہ ہم یہ بھی اچھی
[1] البخاری ۱؍۱۰؛ مسلم ۱؍۵۲۔