کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 91
شیعہ متکلمین مثلاً ہشام[1] بن حکم، ہشام جوالیقی [2]اوریونس بن عبدالرحمن قمی [3] اور ان جیسے دیگر لوگ صفات الٰہی کا اثبات میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ اور وہی بات کہتے تھے جو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں ۔عقیدہ خلق قرآن کا انکار کرتے تھے اوریہ کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔اور ان کے علاوہ بھی اہل سنت والجماعت کے عقائد ان کے ہاں پائے جاتے تھے۔یہاں تک کہ بعض لوگ اپنے غلو کی وجہ سے بدعت کا شکار ہوگئے تھے اور تجسیم اور تبعیض اور تمثیل کا عقیدہ رکھتے تھے۔جیسا کہ مقالات نگاروں نے ان کے عقائد بیان کیے ہیں ۔ تیسری صدی ہجری کے آخر میں کچھ شیعہ لوگوں نے معتزلہ کے اقوال اختیار کیے۔جیساکہ کتاب ’’ الآراء و الدیانات ‘‘ کا مصنف ابن نوبختی؛اور اس جیسے دیگر لوگ ۔ ان کے بعد مفید ابن نعمان اور اس کے پیروکاران آئے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فرق و مذاہب پر کتابیں لکھنے والے مصنفین جیسا کہ ابو الحسن اشعری اور دوسرے لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ شیعہ لوگ توحید یا عدل کے عقیدہ میں معتزلہ سے موافقت رکھتے ہیں ۔ بس یہ عقیدہ بعد میں آنے والے کچھ لوگوں سے منقول ہے۔ بلکہ ان کے پرانے لوگوں سے تجسیم اور اثبات قدر کا عقیدہ نقل کیا جاتا رہا ہے ۔ اسلام میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جسم کا عقیدہ رکھنے والا ہشام بن حکم ہے ۔ اس کے لیے ابن راوندی جیسے مشہور و معروف زندیقوں اور ملحدوں نے کتاب لکھی تھی ؛اس کتاب کی اساس ان کے اصولوں پر رکھی گئی تھی۔
[1] ہشام بن حکم مشہور زندیق ابو شاکر دیصانی کا غلام اور اس کا تربیت یافتہ تھا، ابو شاکر ہی سے اس نے الحاد و زندقہ اور تجسیم کی تعلیم پائی۔ جب ابو شاکر مر گیا تو یہ کسی اور ملحد استاد کی تلاش میں سر گرداں رہنے لگا، اتفاقاً اس کی ملاقات ایک جہمی العقیدہ شخص سے ہو گئی۔ ہشام تجسیم کا عقیدہ رکھتا تھا اس کے عین بر خلاف جہم نفی صفات کا قائل تھا۔ تاہم الحاد و زندقہ اور غلوفی البدعت میں دونوں ایک دوسرے کے ہم نوا تھے۔ برا مکہ مجوس کے آتشکدہ کے متولی چلے آتے تھے۔ جب انہیں ہشام کا پتہ چلا تو وہ اسے بے حد چاہنے لگے۔ روپیہ پیسہ سے اس کی مدد کی اور اس کی ذہانت کو اپنی اغراض کے لیے استعمال کرنے لگے۔ شاید برامکہ کی وجہ ہی سے ہشام شیعہ سے وابستہ ہو گیا۔ جس سے برا مکہ کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح غالی شیعہ کو اس کا تعاون حاصل رہے گا۔ اور وہ نو عمر لوگوں کو تشیع کے جال میں پھنسا سکیں گے۔ علاوہ ازیں وہ اکابر شیعہ سے مل کر برا مکہ کے بڑے بڑے کام نکالے گا، شیعہ مذہب میں مختلف عنصر کے لوگ پائے جاتے تھے۔ ہشام کے عہد اقتدار ہی میں خلیفہ ہارون رشید اپنی خواب غفلت سے چونکا اور برا مکہ شعوبیہ اور زنا دقہ کو سزا دینے کے درپے ہوا۔ نتیجہ کے طور پر برا مکہ زوال پذیر ہو گئے۔ ان واقعات کے دوران ہشام کہیں چھپ گیا اور لوگوں سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی موت ۱۹۹ ھ میں واقع ہوئی۔ ہشام کے عقاید کے لیے دیکھئے ۔ (مختصر تحفہ اثنا عشریہ ،ص:۶۳) [2] ہشام بن سالم جوالیقی اس کا لقب علاف ہے، یہ کہا کرتا تھا کہ اﷲ کی ایک صورت ہے، اور اس نے جناب آدم علیہ السلام کو اپنی صورت کے مطابق پیدا کیا تھا، اس کا قول ہے کہ اﷲ تعالیٰ سر سے لے کر ناف تک کھوکھلا ہے اور ناف سے قدم تک ٹھوس ہے، جرح و تعدیل کے شیعہ علماء اسے ثقہ قرار دیتے ہیں ، یہ سابق الذکر ہشام بن حکم کا معاصر تھا۔ [3] یونس بن عبدالرحمن القمی علی بن یقطین کا موالی تھا، یہ ہشام بن عبدالملک کے عہد خلافت میں پیدا ہوا، امام موسیٰ رضا اور خلیفہ مامون کا معاصر تھا، اور فاسد عقائد رکھتا تھا، شیعہ روایت کرتے ہیں کہ محمد بن دادویہ نے موسیٰ رضا کو بلا کر یونس کے بارے میں دریافت کیا تھا، امام موسیٰ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’ اﷲ اس پر اور اس کے اصحاب پر لعنت کرے اﷲ تعالیٰ اس سے اور اس کے اصحاب سے بیزار ہے۔‘‘ ایک مرتبہ امام موسیٰ رضا نے یونس کی تالیف کردہ کتاب زمین پر دے ماری اور فرمایا: ’’ یہ زانی اور زانیہ کے بیٹے کی تصنیف ہے، یہ زندیق کی کتاب ہے۔‘‘ جب امام موسیٰ رضا خلیفہ مامون کی دعوت پر خراسان تشریف لے گئے تو یونس نے ان کے بارے میں کہا: ’’اگر وہ اس معاملہ میں بخوشی یا ناخوشی داخل ہوگئے تو وہ باغی ہیں ۔‘‘ بایں ہمہ وہ شیعہ کے نزدیک ثقہ اور ان کے لیے سرمایہ افتخار ہے اور وہ اس کی بریت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔