کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 90
اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں : ان بارہ میں سے کسی ایک سے جو بات نقل کی جائے ‘ ان سب کا اس بات پر اتفاق ہوتا ہے ۔
یہ ان کے ہاں شرعی امور کے اصول ہیں ۔ جوکہ سب فاسد اصول ہیں ۔ ہم ان شاء اللہ اس مسئلہ کو اپنے موقع پر بیان کریں گے۔ان لوگوں کاقرآن و حدیث اور اجماع پر کوئی اعتماد نہیں ہوتا۔ سوائے ان معصوموں پر اعتماد کے۔ اور نہ ہی قیاس کو مانتے خواہ وہ کتنا ہی صاف اور واضح کیوں نہ ہو۔
جب منقولات اور عقلیات میں شیعہ کا اعتماد آج کل(یعنی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور میں ) معتزلہ کی تصانیف پر ہے۔ معتزلہ ان سے بڑھ کر عقلمند اور سچے ہوتے ہیں ۔ انکار تقدیر اور سلب صفات میں شیعہ معتزلہ کے ہم نوا ہیں ۔ بخلاف ازیں کوئی معتزلی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت سے منکر نہیں ۔ بلکہ جمہور معتزلہ ان کی عزت و عظمت کے قائل ہیں ۔جب کہ تفضیل کے مسئلہ میں ان کے جمہور ائمہ متقدمین حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی فضیلت کے قائل تھے۔ جب کہ متأخرین میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جو فضیلت کے بارے میں توقف کرتے تھے۔ اور بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے قائل تھے۔ اس بنا پر ان کے اور زیدیہ کے درمیان ایک گونا تعلق قائم ہوگیا؛ اور یہ لوگ توحید ‘ عدل ‘ امامت اور تفضیل میں مشترک ہوگئے۔
قدیم معتزلی ائمہ جیسے : عمرو بن عبید[1] ؛ واصل بن عطاء[2]؛اور دوسرے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عدالت کے بارے میں توقف کیا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ کہا کرتے تھے :
’’حضرت علی اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے دو گروہوں میں سے کوئی ایک فاسق ہے ۔ مگر اس فاسق کو متعین نہیں کرتے تھے۔اگر ان دو میں سے کوئی ایک گواہی دے ‘تو اس کے فسق و فجور کی وجہ سے ان دو میں کسی ایک کے فاسق ہونے کی وجہ سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ مگر اس فاسق کی تعین نہیں۔اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی دوسرے عادل انسان کے ساتھ مل کر گواہی دیں تو پھر ان کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی قبول کرنے کے بارے میں اختلاف ہے ۔ ‘‘
[1] عمرو بن عبید بن باب أبو عثمان ؛ معتزلہ کا امام تھا۔۱۴۴ھ میں فوت ہوا۔ [المنیۃ و الأمل لابن المرتضی ص ۲۲۔ شذرات الذہب ۱؍۲۱۰۔تاریخ بغداد ۱۲؍۱۶۶۔مروج الذہب للمسعودی ۳؍۳۱۳۔ ]
[2] واصل بن عطا الغزال حسن بصری رحمہ اللہ کا شاگرد تھا؛ پھر آپ سے علیحدگی اختیار کر لی؛ اور اس کے اتباع کاروں کو معتزلہ کہا جانے لگا۔ یہ معتزلہ کا بڑا سرغنہ شمار ہوتاہے۔ اس کی وفات ۱۳۱ھ میں ہوئی۔[الملل والنحل ۱؍۵۰۔الفرق بین الفرق ص ۷۰۔ شذرات الذہب ۱؍۱۸۲۔]