کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 89
ارتداد و نفاق [1] سے متہم کرتے ہیں ۔گویا وہ اس مثل کے مصداق ہیں : ’’ رَمَتْنِیْ بِدَائِہَا وَانْسَلَّتْ ‘‘ ۔’’وہ اپنی بیماری مجھ پر پھینک کر کھسک گئی۔‘‘
اسلام کا اظہار کرنے والوں میں رافضیوں سے بڑھ کرکوئی بھی فرقہ نفاق اور الحاد سے قریب تر نہیں ۔ اور کسی فرقہ میں اس فرقہ سے بڑھ کر مرتد اور منافق نہیں پائے جاتے ۔اس بارے میں غالی اور نصیری بہت ہی مشہور ہیں ۔
ملاحدہ کی قربت میں اسماعیلیہ شیعہ اور ان کے ہم مثل لوگ ہیں ۔شرعی امور میں ان کے لیے اصل یہ ہے کہ اہل بیت سے بعض روایات نقل کردی جائیں ۔ ان روایات میں سے کچھ سچی بھی ہوتی ہیں ‘اور اکثر روایات جھوٹی ہوتی ہیں ؛ بلکہ جان بوجھ کر یہ جھوٹ گھڑا جاتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں میں صحیح اور کمزور و غریب روایات کی معرفت کا علم نام کی کوئی چیز نہیں ‘ جیسا کہ محدثین کے پاس علم ہوتا ہے ‘ اس لیے خطا ئے عمد کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
پھر اگر اہل بیت سے روایت صحیح ثابت بھی ہوجائے ؛تو پھر بھی ان کے ہاں خبر کی قبولیت کا وجوب تین میں سے ایک اصول پر مبنی ہوتا ہے :
۱۔ ان میں سے کوئی ایک ایسے معصوم ہوگا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے۔
۲۔ ان میں سے کوئی ایک جب کوئی بات کہتا ہے تووہ اس بات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کررہا ہوتا ہے ۔ اور اس منقول کے بارے میں عصمت کے دعویدار ہوتے ہیں ۔
۳۔ کہتے ہیں : اہل بیت کا اجماع حجت ہے ۔ پھر کہتے ہیں کہ:’’ ان اہل بیت کی تعداد ان کے ہاں بارہ ہے
[1] اہل سنت کے ایک عالم سید ابراہیم نے ایک شیعہ مجتہد محمد مہدی سبزواری کو بتاریخ ۱۴ صفر ۱۳۴۷ھ ایک خط لکھا؛ سید ابراہیم نے اپنے خط میں ایک شیعہ عالم بہاؤ الدین عاملی کا شکوہ کیا تھا کہ اس نے تفسیر بیضادی کے حاشیہ میں آیت : ’’ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِہِمْ ‘‘کی تفسیرمیں لکھا ہے کہ یہ آیت سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی، سید ابراہیم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا : اگر سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ جن کی تعداد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ایک لاکھ سے بھی زائد تھی، پانچ چھ یا سات کے سوا سب کافر منافق اور مرتد ہوئے، تو وہ دین جاہلیت کا اعلان کرتے اور وہ مرتدین کے خلاف نبرد آزمانہ ہوتے۔ مقام حیرت ہے کہ ۲۳ سال تک کافر آپ کے مصاحب رہے اسی طرح طویل مدت تک ایک کافرہ بیوی آپ کی زوجیت میں رہی، اور آپ کو پتہ نہ چل سکا، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اولین و آخرین کا علم عطا کر رکھا تھا۔‘‘ مہدی سبز واری نے ۴ ربیع الآخر کو اس کا حسب ذیل جواب دیا:’’ آپ نے شیعہ کا قول نقل فرمایا ہے، جواباً عرض ہے کہ سیدنا ابوبکر کا کفر ( معاذ اﷲ) بت پرستوں کی طرح حقیقی و واقعی نہیں ، بلکہ حکمی کفر ہے، مزید برآں شیعہ اس بات کے قائل نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کافر ہوگئے تھے، بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ آپ کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔ (العیاذ باللّٰہ)
مذکورہ بالا بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بہاؤ الدین آملی کا یہ قول دروغ گوئی پر مبنی ہے، کہ مذکورۃ الصدر آیت سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی، تاہم عاملی اور سبز واری اس امر میں باقی شیعہ کے ہم نوا ہیں کہ صحابہ اگر آپ کی وفات سے قبل نہیں تو بعد میں ضرور مرتد ہوگئے تھے، ہم کہتے ہیں کہ اگر شیعہ کے افکار و معتقدات کا انکار کفر ہے، تو بلاشبہ اس اعتبار سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنا درست ہے، سید ابراہیم اور مجتہد سبز واری کی مراسلت کے لئے دیکھئے، مجلہ الفتح ’’ جمادی الآخرہ ۱۳۶۶ھ۔