کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 88
بن سلمہ رحمہم اللہ اور ان جیسے دیگر لوگوں سے ایک روایت بھی نقل نہیں کی؛حالانکہ یہ شیعہ فرقہ میں سب سے بہتر لوگ تھے۔ بلکہ یہ لوگ اہل بیت سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ : حضرات حسن ‘ حسین ‘ رضی اللہ عنہمامحمدبن حنفیہ ؛ ان کے آزاد کردہ غلام عبیداللہ بن ابی رافع ۔اور ابن مسعود کے ساتھیوں سے بھی روایت کرتے ہیں ؛ جیسے کہ : عبیدہ السلمانی ؛ حارث بن قیس رحمہ اللہ اور ان جیسے دوسرے لوگ ۔ یہ لوگ نقل ِ روایات کے امام اورنقاد ہیں ‘اور لوگوں میں سب سے بڑھ کر خواہشات سے دور رہنے والے؛ اور لوگوں کے احوال سے خوب باخبراور حق بات کہنے والے ہیں جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
بدعات مختلف اقسام کی ہوتی ہیں ۔ خوارج دینی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں ‘وہ دین اسلام سے ایسے نکل جاتے ہیں ‘ جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اور صحابہ کرام اور اہل اسلام علماء کرام رحمہم اللہ کا ان کے ساتھ جنگ کرنے پر اتفاق ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس اسناد کے ساتھ صحیح احادیث ثابت ہیں ۔جنہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔ان میں سے تین روایات امام بخاری نے نقل کی ہیں ۔یہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوں ‘ بلکہ یہ اپنی سچائی میں سب سے بڑھ کر معروف ہیں ۔ اس کی حدیہ ہے کہ ان کی نقل کردہ روایت کو اصح الحدیث کہاجاتا ہے۔ [1]مگر یہ لوگ اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہی اور جہالت کا شکار ہوگئے۔ ان کی بدعت زندیقیت یا الحاد کی وجہ سے نہیں تھی؛ بلکہ کتاب اللہ کے معانی و مفاہیم سے جہالت اورگمراہی کی وجہ سے تھی۔
جب کہ رافضیوں کے دین کی بنیاد ہی زندیقیت اورالحاد پر مبنی ہے۔ شیعہ میں جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی بیماری بہت زیادہ ہے ۔ شیعہ یہ کہہ کر خود اپنی دروغ گوئی کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہمارا دین تقیہ ہے۔‘‘[2]تقیہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایک اپنی زبان سے وہ بات کہے جو اس کے دل میں نہ ہو۔ اسی کا نام جھوٹ اور نفاق ہے۔ اس کے باوصف وہ باقی اہل ملت کو چھوڑ کر صرف خود مومن ہونے کے دعویدار ہیں ؛ اور سابقین اولین صحابہ کو
[1] خوارج کے نزدیک جھوٹ بولنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور ابدی جہنمی ہے، یہی وجہ ہے کہ خوارج ظالم ہونے کے باوجود جھوٹ نہ بولتے تھے۔
[2] حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں رقم طراز ہیں ، کہ حسن بن مثنیٰ بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب نے ایک رافضی سے کہا:
’’ اگر ہمارا بس چلا تو ہم تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے اور تمہاری توبہ قبول نہیں کریں گے، یہ سن کر ایک شخص بولا۔ آپ ان کی توبہ کیوں کر قبول نہ کریں گے۔‘‘ حسن مثنیٰ نے فرمایا: ’’ ہم ان سے تمہاری نسبت زیادہ واقف ہیں ، اگر چاہیں تمہاری تصدیق کر دیں اور اگر چاہیں تکذیب کر دیں ، ان (شیعہ) کا خیال ہے کہ تقیہ میں ان سب باتوں کی گنجائش ہے۔ مقام افسوس ہے کہ تقیہ کی رخصت مسلمان کو اضطراری صورت میں حاصل ہوتی ہے، مثلاً وہ سلطان سے ڈرتا ہو تو اپنے ضمیر کے خلاف بات کہہ کر اپنی جان بچائے۔ تقیہ میں عظمت و فضیلت کا کوئی پہلو موجود نہیں ، فضیلت کا موجب یہ امر ہے کہ ہر قیمت پر آدمی حق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور سچی بات کہہ دے۔ اﷲ کی قسم!تقیہ کی بنا پر اﷲکے کسی بندے کو یہ حق حاصل نہیں کہ اﷲ کے بندوں کو گمراہ کرتا پھرے۔‘‘(تاریخ دمشق از ابن عساکر:۴؍۱۶۵)