کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 86
کہ جب وہ لوگ برائی کا پرچار کرتے ہیں تو اس بات کے مستحق قرار پاتے ہیں کہ ان سے قطع تعلقی کی جائے؛ اور انہیں مسلمانوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے نہ بڑہایا جائے۔اور اسی باب سے یہ مسئلہ بھی تعلق رکھتا ہے کہ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت نہ کی جائے؛ اور اگر مر جائیں تو ان پر نماز جنازہ نہ پڑھا جائے۔ ان تمام امور کا تعلق اس مشروع قطع تعلقی سے ہے جس کا مقصد انہیں برائی سے روکنا ہوتا ہے۔‘‘ جب یہ بات معلوم ہوگئی یہ مسئلہ شرعی عقوبات سے تعلق رکھتا ہے ؛ تو یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس میں بدعت کی قلت و کثرت کے اختلاف احوال اور سنت کے ظہور و خفاء کے لحاظ سے اس کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ اور یہ کہ کبھی تو تألیف قلب مشروع ہوتی ہے؛اور کبھی قطع تعلقی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار مشرکین میں سے نو مسلم لوگوں کی تالیف قلب کرتے تھے؛ جن کے بارے میں آپ کو فتنہ کا اندیشہ ہوتا تھا۔تو پھر مؤلفۃ القلوب کو وہ کچھ عطا فرماتے جو دوسروں کو نہیں دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا؛ لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں ۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں ۔ لیکن جن کے دل اللہ تعالیٰ نے خیر اور بے نیاز بنائے ہیں ، میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں ۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں ۔‘‘[1] ایک دوسری حدیث میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ میں کسی دوسرے آدمی کو صرف اس ڈر کی وجہ سے دیتا ہوں کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے چہرہ کے بل جہنم کی آگ میں نہ گرا دیں ۔‘‘ [2] اور کبھی کبھار آپ بعض مسلمانوں سے لاتعلقی بھی اختیار کر لیتے تھے؛ جیسے ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قصہ ہے جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ کیونکہ اس سے مقصود اچھے طریقہ سے مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کی طرف دعوت دینا ہوتا ہے۔ پس جہاں پر مناسب ہو وہاں ترغیب کا اسلوب استعمال کیا جاتاہے۔ اور جہاں پر مناسب ہو وہاں ترہیب کا اسلوب بروئے کار لایا جاتا ہے۔ جس انسان کو ان امور کا علم حاصل ہوگیا؛ اس پر واضح ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں نے تأویل کی بنا پر اہل بدعت کی شہادت اور روایت کو مطلق طور پر رد کیاہے؛ ان کا قول ضعیف ہے۔ کیونکہ سلف اس تأویل کی بنا پر بہت بڑی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے تھے۔
[1] رواہ البخاری ۲؍۱۰؛ کتاب الجمعۃ باب من قال في الخطبۃ بعد الثناء....مسند أحمد ۵؍۶۹ [2] البخاری ۱؍۱۰؛ کتاب الإیمان ؛ باب إذا لم یکن الإسلام علی الحقیقۃ....