کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 83
صحیح اور ضعیف کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہیں ۔ شیعہ سے متعلق ائمہ دین کی رائے: تاریخ کے بارے میں شیعہ کا اعتمادان منقولات پر ہے جن کی اسناد منقطع ہیں ۔[1]جن میں سے اکثر مشہور جھوٹے اور ملحد لوگوں کی وضع کردہ ہوتی ہیں ۔ مثلاً شیعہ علماء کے یہاں ابو محنف[2] لُوط بن یحییٰ اور ہشام بن محمد بن سائب کلبی [3] اوران جیسے دیگر لوگوں کی روایات بھی قابل اعتماد ہیں حالانکہ اہل علم کے ہاں یہ لوگ جھوٹ میں مشہور و معروف ہیں ۔اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی روایات پر اعتماد کیا جاسکے۔ اس لیے کہ یہ لوگ انتہائی درجہ کی جہالت اورگمراہی کا شکار ہیں ۔ اہل علم اپنی کتابوں میں ان لوگوں سے روایات نقل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے بڑھ کر جھوٹا فرقہ رافضیوں کا ہے ۔ابو حاتم یونس بن عبدالاعلی[4]روایت کرتے ہیں ، کہ اشہب [5]بن عبدالعزیز کہتے ہیں : امام مالک رحمہ اللہ سے جب روافض کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’ لَا تُکَلِّمْہُمْ وَلَا تَرْوِعَنْہُمْ فَاِنَّہُمْ یَکْذِبُوْنَ ۔‘‘ ’’شیعہ سے بات کیجئے نہ ہی ان سے روایت کیجئے، اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘ ابو حاتم فرماتے ہیں : ہم سے حرملہ [6]نے بیان کیا کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو یہ فرماتے سنا:
[1] سند میں انقطاع کے معنی یہ ہیں کہ اس کا تسلسل ٹوٹ جائے اور ایک یا دو راوی محذوف ہوں ، مثلاً ایک شخص ایسے شخص سے روایت کرے جو اس سے پہلے ہوا ہے اور اس نے اس کا زمانہ نہیں پایا، تاہم وہ جھوٹ موٹ اس سے روایت کرنے کا مدعی ہے، یا اس نے کسی اور شخص کے واسطہ سے روایت کی اور چونکہ وہ شخص معروف بالکذب تھا اس لئے اس کا نام دانستہ سلسلہ سند سے حذف کر دیا تاکہ اس روایت کا جھوٹا ہونا عوام میں مشہور نہ ہو۔ [2] ابو محنف شیعہ رواۃ میں سے مقابلتاً کم درجہ کا ضعیف راوی ہے، اور اس میں ضعف کم پایا جاتا ہے۔ محدث ابن عدی اسکے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ یہ کٹر شیعہ اور اخباری راوی ہے۔‘‘ حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں : ’’ یہ ایک قصہ گو شخص ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، ابو حاتم نے اس کی روایت قبول نہیں کی۔‘‘ فیروز آبادی نے بھی اپنی کتاب ’’ القاموس المحیط ‘‘ میں یونہی لکھا ہے: کہا جاتا ہے، کہ لوط بن یحییٰ ابو محنف ۱۵۷ھ میں فوت ہوا۔ [3] ہشام کا نام و نسب ابو المنذر ہشام بن محمد بن سائب المتوفی ۲۰۴ھ ہے،یہ قصہ گو اور ماہر انساب تھا اس کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کا قول سب سے زیادہ سچا ہے، فرماتے ہیں :’’ یہ قصہ گو او ماہر انساب ہے، میں یہ نہیں خیال کرتا کہ کوئی اس سے حدیث روایت کرتا ہو، یہ ان اخبار و انساب کا مرجع ہے، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ، جہاں تک حدیث رسول کا تعلق ہے، مسلمان اس سے زیادہ دانش مند ہیں ، کہ وہ اس کے دھوکہ میں آئیں ۔‘‘ کلبی کے بارے میں محدث ابن عساکر نے حسب ذیل رائے کا اظہار کیا ہے:’’کلبی شیعہ ہے اور اعتماد کے قابل نہیں ۔‘‘ [4] یہ اپنے زمانہ میں امام مصر اور وہاں کے جید فاضل تھے ۲۶۴ھ میں وفات پائی۔ [5] اشہب بن عبدالعزیز قیسی المتوفی (۱۴۰۔ ۲۰۴) یہ ائمہ مصر میں سے تھے اور امام مالک اور لیث بن سعد کے شاگرد تھے۔ [6] حرملہ بن یحییٰ نجیبی المتوفی ۲۴۳ یہ امام شافعی کے تلمیذ خاص اور مصر کے یکتائے روز گار فاضل تھے، انہوں نے امام مالک کے تلمیذ خاص ابن وہب سے تقریباً ایک لاکھ روایات اخذ کیں ۔