کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 82
فصل: رافضیوں کا جھوٹ اور علم سے تہی دامنی ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ۔اللہ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق سے ۔ اس کتاب’’ منہاج الندامۃ ‘‘ کے تعارف میں راہ استقامت پر گامزن رہتے ہوئے اس کی وضاحت کریں گے۔ [اس کتاب کا مصنف ]ابن المطہر بھی اپنے پیش روؤں مثلاً ابن نعمان[1] المفید، کراجکی[2]و ابو القاسم[3] موسوی، اور نصیر الدین طوسی [4]کی راہ پر گامزن رہا۔ شیعہ دراصل طریق بحث و مناظرہ؛ معرفت دلائل اور اصطلاحات مناظرہ مثلاً :منع و معارضہ سے بالکل ناآشنا ہیں ، اسی طرح منقولات سے بھی وہ قطعی طور پر تہی دامن ہیں ۔اور اس کے ساتھ ہی منقولات ؛ احادیث اور آثار کی معرفت میں لوگوں میں سب سے بڑے جاہل ہیں ۔
[1] اس کا نام و نسب محمد بن محمد بن نعمان بن عبدالسلام بغدادی (المتوفی ۳۳۶۔۴۱۳ھ) ہے،یہ حلہ نامی شہر کا شیخ المشائخ تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹی بڑی دو صد سے زائد کتب کا مصنف ہے۔ [2] محمد بن علی بن عثمان الکراجکی (المتوفی ۴۴۹ھ)۔ یہ شیخ ابن نعمان المفید کے تلامذہ میں سے تھا، کراجک ایک گاؤں کا نام ہے۔ [3] اس کا پورا نام ابو القاسم علی بن حسین بن موسیٰ المعروف بالمرتضیٰ ہے، تاریخ وفات (۳۵۵۔ ۴۳۶) ہے، یہ محمد بن حسین الرضی کا بھائی تھا، جو مشہور شاعر تھا، اس کی تاریخ وفات (۳۵۹۔۴۰۶) ہے ان دونوں بھائیوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خطبات میں اضافہ کر کے ان میں طرح طرح کے عجائبات و غرائبات جمع کر دئیے، حالانکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دامن ایسی افترا پردازی سے پاک ہے۔ [4] محمد بن محمد بن حسن خواجہ نصیر الدین طوسی المتوفی (۵۹۷۔۶۷۲)ہے، مشہور ظالم و سفاک ہلاکو نے ۶۵۵ھ میں بغداد میں قتل عام کا جو بازار گرم کیا تھا اس کی براہ راست ذمہ داری نصیر الدین طوسی ابن علقمی اور اس کے مشیر ابن ابی الحدید پر عائد ہوتی ہے۔ طوسی ایک ملحد فلسفی تھا اور زوال بغداد کا اولیں محرک تھا۔ زوال بغداد سے قبل یہ بلاد الجبل اور قلعہ الموت میں سکونت پذیر تھا اور فرقہ اسماعیلیہ کا طرف دار تھا۔ طوسی نے اپنی مشہور تصنیف اخلاق ناصری اسماعیلی سلطان علاؤالدین محمد بن جلال حسن کے وزیر ناصرالدین کے لیے تحریر کی تھی۔ ناصر الدین بلاد الجبل (کوہستان) کا حاکم تھا اور بڑا بدباطن شخص تھا طوسی کے نفاق اور خبث باطن کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس نے بنی عباس کے آخری خلیفہ المستعصم المتوفی (۵۸۸۔ ۶۵۶ھ) کی شان میں مدحیہ قصیدہ لکھا تھا۔ حالانکہ زوال بغداد کا محرک یہی طوسی تھا۔ شیعہ طوسی کی اس رسوا کن خیانت اور خبث باطن کو اس کے انتہائی کمالات میں سے شمار کرتے ہیں ۔ (دیکھئے شیعہ کی کتاب روضات الجنات طبع ثانی: ۵۷۸) طوسی ملحد کی یہ خیانت اتنی بڑی تھی کہ اس سے بڑی خباثت و خیانت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ طوسی اس قدر خیانت کار تھاکہ یہ ہلاکو کے خلاف سازش کرنے سے بھی باز نہ رہا۔ ہلاکو کو اس سازش کا پتہ چل گیا تھا وہ اس کی پاداش میں طوسی کو جہنم رسید کرنا چاہتا تھا۔ مگر قتل کرنے سے یہ امر مانع ہوا کہ طوسی سیاروں کی حرکات معلوم کرنے کے لیے ایک زائچہ تیار کر رہا تھا، اس نے چاہا کہ وہ تکمیل پذیر ہو جائے، ہلاکو نے جب طوسی کو بلا کر برا بھلا کہا اور اس کی خیانت کی قلعی کھول کر اسے قتل کی دھمکی دی تو طوسی کا شاگرد قطب الدین شیرازی موقع کو غنیمت جان کر اس زائچہ کی تکمیل کے لیے تیار ہوگیا اور ہلاکو سے کہا:’’اگر آپ کی رائے مبارک اس شخص (طوسی) کو قتل کرنے کے حق میں ہے تو زائچہ کی تکمیل کے لیے میری خدمات حاضر ہیں ۔‘‘ مقام افسوس ہے کہ علم و فضل کے یہ مدعی شرم و حیا کے کسی احساس کے بغیر اخلاقی گرواٹ کی اس حد تک پہنچ جاتے تھے۔