کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 81
قتل کیا گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ [جو کہ آپ کے خالو ‘جامع القرآن اور ذوالنورین ہیں ] کو قتل کیا گیا ۔آپ کا قتل کیا جانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلا فتنہ تھا جو اس امت میں پیدا ہوا۔ اور آپ کے قتل کی وجہ سے جو فتنہ و فساد پیدا ہوا وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی وجہ سے پیدا ہونے والے فتنہ سے کئی گناہ بڑھ کر ہے ۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایک لوگ قتل ہوئے ‘ اور کئی لوگ طبعی موت مر گئے۔ مگر مسلمانوں یا غیر مسلموں میں سے کسی ایک نے بھی میت پر ایسے ماتم نہیں کیا اورنہ ہی کسی مقتول پر اتنی نوحہ گری کی گئی۔ سوائے ان بیوقوفوں کے ۔اگر یہ لوگ پرندوں میں ہوتے تو کوّے ہوتے اور اگر چوپائے ہوتے تو گدھے ہوتے۔‘‘ ان میں سے بعض ایسے بھی بیوقوف ہیں جو جھاؤ کی لکڑ نہیں جلاتے ؛ اس لیے کہ انہیں پتہ چلاہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خون جھاؤ پر گرا تھا۔حالانکہ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ محض جھاؤ کی لکڑ جلاناشریعت میں مکروہ نہیں ہے؛ خواہ اس پر کوئی بھی خون گراہو۔ تو پھر سارے جہاں میں پائے جانے والے اس جنس کے درخت جلانے میں کیا حرج ہے جن پر خون گرا ہی نہیں ؟ ان کی حماقتیں اتنی زیادہ ہیں کہ یہاں پر ان کا تذکرہ کرنا طوالت اختیار کر جائے گا؛ ان کے نقل کرنے کے لیے کسی سند کی ضرورت بھی نہیں ۔لیکن اس سے مقصود یہ ہے کہ زمانہ قدیم یعنی تابعین اور تبع تابعین کے دور سے ان لوگوں کی حماقتوں کی روایتیں معروف ہیں ؛جیسا کہ امام شعبی اور امام عبد الرحمن سے بعض روایات ثابت ہیں ۔ [امام شعبی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور تابعین میں سے ہیں ‘ جب کہ حضرت عبد الرحمن تبع تابعین میں سے ہیں ۔اور آپ کوکئی ایک علوم پر دسترس حاصل تھی]۔ آپ کی روایات دوسری روایات کے ساتھ مل کر قابل اعتماد ہوتی ہیں ۔ان کے علاوہ مقاتل بن سلیمان ‘ محمد بن عمر الواقدی اور ان جیسے دیگر لوگ بھی شامل ہیں ۔ان شہادات اورروایات کی کثرت کے ساتھ اگر ان کے راوی ثقہ نہ بھی ہوں تو بھی یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجاتی ہے۔ تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب ثقہ لوگ ان روایات کو نقل کررہے ہوں ۔ یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ خود جنس شیعہ میں جو مذموم اقوال و افعال پائے جاتے ہیں ‘ وہ اس سے کہیں بہت زیادہ ہیں جو ہم نے ذکر کیے ہیں ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ سب اقوال امامیہ یا زیدیہ کے ہوں ‘ یہ اقوال غالیہ اور کئی دوسرے شیعہ فرقوں کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر : اونٹ کے گوشت کو حرام قرار دینا ‘ اور یہ کہنا کہ طلاق میں عورت کی مرضی شرط ہے ؛ اور ان کے علاوہ دیگر ایسے اقوال جو ان کے عام لوگوں میں مشہور ہیں اگرچہ ان کے علماء اس کا اقرار نہ بھی کرتے ہوں ۔ اس لیے کہ جب ان کے مذہب کی بنیاد ہی جہالت پر ہے تو ان کے اکثر لوگ جہالت و حماقت کا شکار ہیں ۔