کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 80
’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے اپنے چہرے کو پیٹا اور گریبان چاک کیا اور جاہلیت کی سی پکار پکاری۔‘‘ [1] نیز یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت کے وقت میں سر منڈوانے ‘ چلا چلا کر رونے اور اپنے کپڑے پھاڑنے والوں سے برأت کا اظہار فرمایا ہے ۔‘‘[2] اور صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس پر ماتم کیاجائے ‘ اسے اس ماتم کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ۔‘‘ [3] اور مسلم شریف کی صحیح روایت میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اس پر گندھک کا کرتا اور زنگ کی چادر ہو گی۔‘‘ [4] اس معنی میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ اور یہ لوگ تو ایسا ہی کرتے ہیں ‘ اپنے گال پیٹتے ہیں ‘ گریبان پھاڑتے ہیں ‘ اور جاہلیت کا رونا روتے ہیں ‘ اور ان کے علاوہ دیگر کئی برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو کہ کئی صدیوں سے جاری ہے ۔ اگر یہ کام اسی وقت بھی ہوتا [جب یہ غم تازہ تھا] تب بھی ایسا کرنا بہت بڑی برائی ہوتی ؛ کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔تو پھر اتنی مدت گزر جانے کے بعد اس کا کیا جواز ہوسکتاہے۔٭ یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ جو لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے افضل تھے ؛جن میں انبیاء بھی شامل ہیں اور غیر انبیاء بھی ؛ انہیں ظلم و عداوت سے قتل کیا گیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو کہ آپ کے والد اور آپ سے افضل ہیں ‘انہیں
[1] البخاري ۲؍۸۲؛کتاب الجنائز ؛ باب لیس منا من شق الجیوب؛ مسلم ۱؍۹۹۔ کتاب الایمان؛ باب تحریم ضرب الخدود ۔سنن النسائی ۴؍ ۱۳؛ کتاب الجنائز ؛ باب ضرب الخدود ۔ [2] البخاري ۲؍۸۱؛ مسلم ۱؍۱۰۰۔ [3] البخاري ۲؍۸۰؛ کتاب الجنائز ؛ باب ما ینہی من الحلق عند المصیبۃ ۔ مسلم ۲؍۶۴۴۔ کتاب الایمان؛ باب تحریم ضرب الخدود۔ [4] مسلم ۲؍۶۴۴۔ ٭ یہ بات تاریخ میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کا باقی ماندہ قافلہ کوفہ کی طرف نکلا تو وہاں لوگ رو رہے تھے اور ماتم کررہے تھے ۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے پوچھا یہ لوگ کیوں رو رہے ہیں ؟ بتایا گیا کہ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر رورہے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا: ’’ ارے ظالمو! تم نے ہی تو انہیں قتل کیا ہے ؛ اور اب رو رہے ہو ؛ جاؤ تم قیامت تک ایسے روتے ہی رہو۔‘‘یہ انہی مظلوموں کی بد دعاؤں کا اثر ہے کہ اصل قاتلین کی اولاد آج بھی رو رہے ہیں اور اپنے آپ کو پیٹ رہے ہیں ۔ورنہ قتل کرنے والے مردود بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے اور مقتولین بھی اپنے انعام کو پہنچ گئے ؛ وارثین اور لاحقین بھی صبرواستقامت کے ساتھ اپنے رب کی طرف سے عزت و اکرام کو پہنچ گئے ؛ اور جواہل جرم ہیں ان پر آج بھی رسوائی و ذلالت چھائی ہوئی ہے۔اوران پر بددعاؤں کے اثرات ہر خاص و عام ملاحظہ کرسکتا ہے ۔[دراوی جی ]